زندگی یا اپنے مال یا اپنی جائیداد کا بیمہ کرائے تو مذکورہ بالا ائمہ کرام کے قول کی بنا پر اس کی شرعا گنجائش ہے ۔
اوپر کی عبارت میں لفظ ’’ ضرورت شدیدہ ‘‘ سے مراد یہ ہے کہ جان یا اہل وعیال یا مال کے ناقابل برداشت نقصان کا قوی اندیشہ ہو ۔
’’ ضرورت شدیدہ ‘‘ موجود ہونے یا نہ ہونے کا فیصلہ مجلس کے نزدیک مبتلی بہ ( جو شدید دشواریوں میں مبتلا ہو کر بیمہ کرنا چاہتا ہو ) کی رائے پر منحصر ہے جو خود کو عند اللہ جواب دہ سمجھ کر علماء کے مشورہ سے قائم کرے ۔ (۱)
موجودہ انشورنس کا اقتصادی نقصان :
ویسے انشورنس کا موجودہ نظام غیر اسلامی ہونے کے علاوہ معاشی اعتبار سے بھی نظرثانی کا محتاج ہے ۔ موجودہ نظام میں بینک کی طرح اصل فائدہ چند سرمایہ داروں کو حاصل ہوتا ہے ، انہیں کے پاس دولت کا ارتکاز ہوتا جاتا ہے اورعام لوگوں کو اس سے جو نفع حاصل ہوتا ہے اس کا تناسب بہت معمولی ہوتا ہے ۔ مثلا اگرایک سال میں اس اسکیم میں ایک سو آدمی شریک ہوں اوران سے ایک لاکھ روپے حاصل ہوں تو انشورنس کمپنی ان کو تجارت ، صنعت اور مختلف کاروبار میں لگا کر بے پناہ فائدہ بٹورتی ہے ، اس کا فائدہ ۹۰ فیصد حصہ چند سرمایہ داروں کے جیب میں جاتا ہے ، عام شرکاء کے حصہ میں جو نفع ملتا ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) اس پر شاہ معین الدین احمد صاحب ندوی مرحوم ، مولانا مفتی عتیق الرحمن صاحب عثمانی مرحوم ، مولان مفتی ظفیرالدین صاحب مفتاحی، مولانا سید فخرالحسن صاحب مرحوم، مولانا محمد منظور نعمانی ، مولانا سعید احمد اکبر آبادی مرحوم ، مولانا محمد اویس صاحب ندوی مرحوم ، مولانا شاہ عون احمد صاحب ، مولانا ابو اللیث صاحب ندوی مرحوم ، مولانا محمد اسحاق سندیلوی نے دستخط کئے ہیں ۔