اس سے معلوم ہوا کہ مزدوروں اور ملازمین کی اجرت اس قدر ہونی چاہئے کہ کم از کم خوراک اور پوشاک کے معاملے میں اس کا معیار زندگی مالکین اور افسروں کے مساوی اور یکساں ہو ۔
دوسرے اجرت کی مقدار اتنی ہو کہ وہ اہل و عیال کی بھی اسی سطح پر پرورش کرسکے ، حسب ضرورت خادم رکھ سکے اور مکان بنا سکے ۔ آپؐ نے فرمایا ، جو شخص ہمارا عامل (ملازم) بنے اسے چاہیے کہ بیوی حاصل کرلے ، خادم نہ ہو تو ایک خادم رکھ لے اور مکان نہ ہو تو ایک مکان فراہم کر لے (۱) حضرت سیدنا ابوبکر صدیقؓ نے خلیفہ منتخب ہونے کے بعد فرمایا میرا ذریعہ معاش میرے اہل و عیال کے لئے کافی تھا ، اب میں مسلمانوں کے کام میں مشغول کردیا گیا ہوں اس لئے ابوبکر کے عیال اسی سرکاری مال میں سے کھائیں گے اور ابوبکر مسلمانوں کے لئے کام کریں گے (۲)
اجرت کی ادائیگی
اُجرت کے سلسلے میں اس اصولی ہدایت کے بعد ۔ کہ ان کی جملہ ضروریات زندگی کی تکمیل کی جائے ۔ اسلام نے یہ بھی حکم دیا ہے کہ اجرت کی مقدار پہلے ہی واضح کر دی جائے اور مبہم نہ رکھا جائے ۔
ان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نھی استجارۃ الاجیر حتی بین لہ اجرہ ۔ (۳)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی مزدور سے کام لینے سے منع فرمایا ہے تا آنکہ اس کی اجرت واضح کر دی جائے ۔
(۱) ابوداؤد عن مستورد بن شدادؓ
(۲) بخاری عن عائشۃؓ
(۳) السنن الکبری للبیھقی