۸۴
اور جیسا کہ ذکر کیا گیا کہ تیل، خوشبو اور کنگھے کے استعمال کا بھی معمول تھا، آپ صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم ابتداءاً سیدھے بال رکھا کرتے تھے پھر بعد کو مانگ نکالنے لگے (۱) جو سر کے بیچ میں ہوتی (۲)۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سر اور داڑھی میں خضاب کا استعمال کرتے تھے یا نہیں؟ اس میں اختلاف ہے۔ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خضاب لگایا ہے۔ حضرت ابو رمثہ رضی اللہ عنہ و حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ایک روایت میں بھی ایسا ہی منقول ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ایک اور روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خضاب نہیں استعمال کرنا منقول ہے اور اس کو اس سے بھی تقویت ہوتی ہے کہ سر مبارک میں چند ہی بال پکے ہوئے تھے۔ غالباً تیل کی کثرت اور خوشبو کے استعمال کی وجہ سے یہ پکے ہوئے بال لال نظر آتے تھے اور اسی کو بعض حاضرین خضاب خیال کرتے تھے (۳)۔
مونچھ :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مونچھ کے تراشنے کو امور فطرت میں سے قرار دیا ہے (۴)۔ حدیث میں مونچھ کے تراشنے کے سلسلہ میں مختلف تعبیرات ذکر گئی ہیں۔ قص الشوارب ، احفوا الشوارب ، جزوا الشوارب ، انھکوا الشوارب۔
قص کے علاوہ یہ تمام الفاظ مبالغہ کے ساتھ بال تراشنے کو بتلاتے ہیں (۵)۔ انہی تعبیرات کو سامنے رکھ کر احناف، شوافع اور حنابلہ مطلقاً تراشنے کو مسنون اور اس میں مبالغہ کو بہتر سمجھتے ہیں (۶)۔ امام مالک رحمۃ اللہ مونچھ کے کاٹنے میں
---------------------------------------------------
(۱) ابو داؤد باب ماجاء فی الفرق عن ابن عباس ۲/۵۷۶۔
(۲) ھو قسمتہ فی المفرق و ھو وسط الراس، عون المعبود ۱۱/۴۱۔
(۳) دیکھئے زاد المعاد ۱/۶۲ فصل فی ہدیہ فی الفطرۃ و توابعہا۔
(۴) بخاری عن ابن عمر باب قص الشارب ۲/۸۷۴۔
(۵) فتح الباری ۱۰/۴۲۵۔
(۶) دیکھئے شرح مہذب ۱/۲۸۷، فتح الباری ۱۰/۴۲۵۔