چھینک کا جواب بعض اہل علم کے نزدیک فرض عین اور امام شافعیؒ کے نزدیک سنت ہے ۔ لیکن عام فقہاء فرض کفایہ کہتے ہیں ۔ مجلس میں ایک شخص نے جواب دیا تو سب کی طرف سے کفایت ہوجائے گی ۔ (۱) مناسب ہے کہ چھینکنے والا ’’ الحمد للہ ‘‘ ایسی آواز میں کہے کہ دوسرے لوگ سن سکیں (۲) خود چھینکے والے کا ’’ الحمد للہ ‘‘ کہنا بالاتفاق واجب نہیں ، مستحب ہے (۳) یا سلام کی طرح مسنون ، اگر کسی غیر مسلم کو چھینک آئے اور وہ الحمد للہ کہے تو جواب میں ’’ یھدیکم اللہ و یصلح بالکم ‘‘ ( اللہ تم کو ہدایت دے اور تمہارے حالات بہتر کرے ) کہنا چاہیے ، آپ ﷺ سے بعض یہود کو اسی طرح جواب دینا ثابت ہے ۔ (۴) جمائی آئے تو ممکن حد تک روکنے کی سعی کرے (۵) اور منہ پر ہاتھ رکھے (۶) کہ جمائی کی حالت میں منہ بد ہیئت نظر آتا ہے ۔
گفتار :
گفتگو میں سب سے زیادہ جس بات کی تاکید کی گئی ہے وہ ہے سچائی اور راست گوئی اور سب سے زیادہ جس چیز کی مذمت کی گئی ہے وہ ہے جھوٹ اور کذب بیانی ، آپ ﷺ نے سچائی کا انجام جنت اور جھوٹ کا دوزخ کو قرار دیا ہے (۷) قرآن مجید نے سیدھی سچی بات کو اعمال کی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) مرقاۃ ۴ / ۵۹۰ (۲) حوالۂ مذکور
(۳) فتح الباری ۱۰ / ۷۳۲ ، باب الحمد للعاطس
(۴) ترمذی ، عن ابی موسی ، باب ما جاء کیف تشمیت العاطس
(۵) بخاری عن ابی ھریرۃ ، باب اذا تثاءب فلیضع یدہ علی فیہ
(۶) مسلم عن الخدری ، باب تشمیت العاطس وکراہۃ التثاؤب
(۷) بخاری و مسلم عن عبداللہ بن مسعود ، مشکوۃ باب حفظ اللسان