قبضہ کے بعد فروخت :
خرید و فروخت اور تجارت کے سلسلہ میں اسلام نے جو احکام دیئے ہیں، ان میں ایک اہم مسئلہ یہ ہے کہ کسی چیز پر قبضہ کے بعد ہی اس کو فروخت کیا جائے۔ بعض روایات میں مطلقاً قبضہ سے پہلے فروخت کو روکا گیا ہے (۱)۔ بعض میں یہ ممانعت خاص کھانے پینے کی اشیاء کی باب منقول ہے "من اتباع طعاماً فلا یبعہ حتی یسترفیہ" (۲)۔ اس طرح کی متعدد روایات منقول ہیں۔ اسی بنا پر امام شافعی کے نزدیک تو کسی بھی شیٔ پر قبضہ حاصل کرنے سے پہلے اس کو فروخت کرنا جائز نہیں (۳)۔ امام مالک رحمہ اللہ کے نزدیک یہ حکم صرف غذائی اشیاء کے لئے ہے۔ دوسری اشیاء اس حکم میں داخل نہیں ہیں (۴)۔ اور احناف کے نزدیک منقولہ اشیاء (جو ایک جگہ سے دوسری جگہ لے جائی جا سکتی ہوں) میں قبضہ ضروری ہے، غیر منقولہ اشیاء کی فروخت قبضہ سے پہلے جائز ہے (۵)۔ جہاں شوافع نے حدیث کے عموم پر عمل کیا ہے، مالکیہ نے ان حدیثوں کو اصل قرار دیا ہے جن میں صرف غذائی اشیاء پر قبضہ کا ذکر ہے، وہیں حنفیہ نے مسئلہ کی اصل روح اور شریعت کے منشاء و مقصود پر نظر رکھی ہے۔
احناف کے پیش نظر یہ ہے کہ مقصود "غرر" یعنی امکانی دھوکہ کا سدِّ باب ہے جب تک کوئی چیز قبضہ میں نہ آ جائے، احتمال موجود ہے کہ شاید قبضہ ہی میں نہ آ پائے، ایسی شکل میں وہ اپنے عہد کو پورا نہیں کر پائے گا، منقولہ اشیاء میں تو
--------------------------------------------------------
(۱) مسلم کتاب البیوع باب بطلان بیع المبیع قبل القبض۔
(۲) بخاری ۱/۲۸۶ باب بیع الطعام قبل ان یقبض الخ۔
(۳) شرح نووی علی المسلم ۲/۵۔
(۴) حوالہ سابق۔
(۵) شرح نووی علی المسلم ۲/۵۔