فِي الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ وَيَصُدَّكُمْ عَن ذِكْرِ اللَّـهِ وَعَنِ الصَّلَاةِ ۖ فَهَلْ أَنتُم مُّنتَهُونَ
اور نماز سے روک دے پھر کیا تم لوگ اس سے رکو گے ؟؟ (مائدہ : ۹۰ )
احادیث میں بھی اس کی بڑی مذمت آئی ہے ۔ آپﷺ نے فرمایا جو شخص اپنے ساتھی سے کہے آؤ ، تمہارے ساتھ جوا کھیلیں ، اسے صدقہ کرنا چاہئیے (۱) یعنی صرف جوے کی دعوت بھی اتنا بڑا جرم ہے کہ صدقہ کے ذریعہ اس کا کفارہ ادا کردینا چاہیے ، چہ جائے کہ خود جوا کھیلنا یا جوئے کا کاروبار کرنا ۔ اسی لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسے تمام تجارتی معاملات اور کاروبار کو ممنوع قرار دیا ہے جس میں قمار اور جوا پایا جاتا ہو ۔
لاٹری اور معمے :
لاٹری میں بھی قمار اور ربوا دونوں ہی پایا جاتا ہے ، اس لئے کہ جو ٹکٹ خرید کرتا ہے اگر اس کے نام سے لاٹری نکلے جو اکثر اوقات روپیہ ہی کی صورت میں ہوتی ہے تو لین دین کا معاملہ ( عقد معاوضہ ) میں ایک طرف سے کم اور دوسری طرف سے زیادہ معاوضہ ہوجائے گا اور یہی ’’ ربوا ‘‘ ہے ، دوسرے اس میں نفع و نقصان مبہم اور خطرہ میں رہتا ہے کہ اگر نام نکل آیا تو نفع ہو گا نہ نکلا تو اصل پونجی بھی ڈوب جائے گی ۔ پھر یہ نفع ٹکٹ خریدنے والوں کی محنت کا نتیجہ نہیں ہے بلکہ محض بخت و اتفاق ہے کہ اسی کا نام نکل آیا ۔ ایسے ہی مبہم اور زیر خطر نفع و نقصان کو قمار کہتے ہیں ، اس لئے قمار بھی پایا گیا ۔
امام ابوبکر جصاص رازی لکھتے ہیں :
لا خلاف بین اھل العلم جوئے کی حرمت اور ’’ مخاطرہ ‘‘ کے جوا ہونے میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) بخاری و مسلم