خرید و فروخت کو جائز نہیں رکھا گیا ،اس لئے کہ مجسموں کی خرید و فروخت شرک میں اعانت ہے ،شراب فروشی سے شراب نوشی کو تقویت حاصل ہوگی،سور،خون اور مردار کی خرید و فروخت اس کی عظمت و حرمت کا اعتراف ہے جو دین و شریعت کے خلاف ہے فتنہ زمانہ میں اہل فتنہ سے اسلحہ کی خرید و فروخت اور اغلام بازی کے عادی سے غلام کی ضرید و فروخت کو بھی اس قاعدہ کے تحت فقہاء نے منع کیا ہے ،غور کیا جائے تو وہ معاملات جن کو فقہاء نے"بیع باطل"کے زمرہ میں رکھا ہے وہ اکثراسی اصول کی بنا پر ممنوع قرار دئے گئے ہیں ۔
بعض بنيادی اصول
تجارت کا ایک بنیادی اصول یہ ہے کہ جس چیز کو فروخت کی جارہا ہو وہ موجود ہو ،معدوم شئی بیچنا درست نہیں ،مثلاًکوئی شخص یوں کہے :میری گائے کو بچہ ہوگا اسے میں نے فروخت کیا تو یہ درست نہیں ہوگا ،نیز وہ شئی بیچنے والے کی ملکیت میں بھی ہو ،بیچتے وقت جو چیز اسکی ملکیت اور قبضہ میں نہ ہو اس کو بیچنا درست نہیں ۔اس سے صرف دو صورتیں مستثنیٰ ہیں ،سلم اور استصناع،سلم یہ ہے کہ قیمت نقد ادا کردی جائے اور سامان جو ابھی بیچنے والے کے پاس موجود نہ ہو لیکن بازار میں دستیاب ہو ،ایک مدت کے بعد حاصک کیا جائے ،"استصناع"یہ ہے کہ کاریگرکو پیشگی قیمت ادا کرکے مصنوعات کا آرڈر دیا جائے ،حالانکہ مصنوعات پہلے سے موجود نہ ہوں (1)۔خرید و فروخت کے صحیح ہونے کے لئے ایک ضروری شرط یہ بھی ہے کہ جو چیز بیچی جارہی ہے وہ مال متقوم ہو یعنی مال بھی ہو اور شریعت اس کو
-------------------------------------------------------
(1)ہندیہ3/3