مارپیٹ سے کام ہی نہ لیا جائے۔ اس لیے اکثر اوقات اس کی وجہ سے بچے بہت شوخ اور نافرمان ہو جاتے ہیں اور رعب و دبدبہ ان کے دل میں باقی ہی نہیں رہ پاتا ۔ اس کا ثبوت وہ حدیث ہے کہ " اس پر اللہ کی رحمت ہو جو اپنے گھر میں کوڑا لٹکا کر رکھے تاکہ اس کے ذریعہ اس کے اہل و عیال ڈریں " (۱) ۔
پھر تربیت میں جہاں مختلف ذرائع استعمال کرنے پڑیں وہاں اس کا خیال رکھنا چاہیے کہ پہلے خفیف تنبیہ اور پھر اس کے بعد اس سے سخت تنبیہ کی جائے ۔ اس کا اندازہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے دعوت و اصلاح کے مجموعی طریقِ کار سے تو ہوتا ہی ہے ، اس بات سے بھی ہوتا ہے جو قرآن نے بیوی کی فہمائش کے سلسلہ میں ہدایات دی ہیں کہ پہلے وعظ و پند اور نصیحت و موعظت سے کام لیا جائے ۔ اس سے کام نہ چلے تو وقتی طور پر ترکِ تعلق کر لیا جائے ( ھجر فی المضاجع ) اور اگر یہ بھی کافی نہ ہو تو ان کے مناسبِ حال خفیف سرزنش کی جائے ۔ یہی اصول بچوں بلکہ سن و سال کے لوگوں کی اصلاح اور ان کی تربیت کےلئے ہے ۔
اسوۂ رسالت کی روشنی میں
اس سلسلہ میں جب ہم خود پیغمبرِ اسلام صلی اللہ علیہ وسلم کے اُسوۂ حسنہ کا مطالعہ کرتے ہیں تو دیکھتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حالات اور مخاطب کے لحاظ سے مختلف مواقع پر جُدا گانہ اور الگ الگ طرزِ عمل اختیار کیا ہے ۔ کبھی صرف مؤثر توجہ دہانی فرما دی ، مثلاً عمر بن ابی سلمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے زیر پرورش تھے اور کم عمر
---------------------------------------------------
(۱) ویلمی بحوالۂ کنز العمال ۲۷۰/۲۱ رحم اللہ عبد اعلق فی بیتہ سوطاً یؤدب بہ اہلۂ ۔