العامۃ ھی السنۃ (۱)۔ غیر مسلم دعوت دے اور اپنے یہاں تقریب نکاح میں بلائے تو اس میں بھی شرکت جائز ہے۔ اگر دعوتِ ولیمہ میں منکراتِ شرعیہ کا ارتکاب ہو تو اس میں شریک نہیں ہونا چاہیے۔ اس سلسلہ میں اصول وہی ہیں جو عام دعوتوں کے سلسلہ میں ہیں اور ان کا ذکر پہلے ہو چکا ہے (۲)۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اگلے دن ولیمہ کو حق، دوسرے دن درست اور تیسرے دن ریاکاری قرار دیا ہے (۲) اس لئے مسلسل دو تین دنوں تک یا اس سے زیادہ ولیمہ کا اہتمام اور دعوت کا سلسلہ مکروہ اور ناپسندیدہ ہے، ہاں اگر تفاخر کا جذبہ نہ ہو، لوگ زیادہ ہوں اور ایک آدمی ایک ہی بار شریک طعام ہو، دوسرے اور تیسرے دن کے مدعوئین الگ ہوں تو ایک سے زیادہ دنوں کا ولیمہ کا اہتمام جائز ہے۔ حضرت انس رضی اللہ عنہ کے بیان کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت صفیہ سے نکاح کے موقع پر تین دنوں تک ولیمہ فرمایا ہے(۴)۔ بلکہ حفصہ بنت سیرین ناقل ہیں کہ ان کے والد نے تو سات دنوں تک ان کا ولیمہ کیا اور مختلف صحابہ کو مختلف دنوں میں دعوت دی (۵)۔ ہمارے فقہاء نے عام طور پر یکجائے کے بعد اس دن یا دوسرے دن دعوتِ ولیمہ منعقد کرنے کو کہا ہے اور لکھا ہے کہ اس کے بعد ولیمہ نہیں ہو گا (۶)۔
مہر
نکاح کی وجہ سے عصمتِ انسانی کے احترام کے اظہار کے لئے شریعت نے
----------------------------------------
(۱) عالمگیری ۵/۲۴۳۔
(۲) در مختار، باب الحظر والاباحۃ۔
(۳) ابو داؤد ۲/۱۷۰۔
(۴) دیکھئے فتح الباری ۱/۲۱۰۔
(۵) حوالۂ مذکور۔
(۶) ولابأس بان یدعو یومٔذ من الغد و بعد الغد ثم ینقطع العرس و ولیمۃ، ہندیہ ۵/۳۴۳۔