خلع میں عورت کی طرف سے دیئے جانے والے معاوضہ کی حیثیت یوں تو آپسی معاہدہ کی ہے اور وہ دونوں باہم اس کی جو قیمت طے کر یں وہی معاوضہ ہو گا لیکن شریعت نے اس کے لئے کچھ مناسب حدیں مقرر کر دی ہیں جن کی تفصیل یہ ہے کہ اگر زیادتی خود مرد کی جانب سے رہی ہو تو اس کو طلاق کا کچھ معاوضہ نہیں لینا چاہئے اور یوں ہی طلاق دینا چاہئے ، اس لئے کہ شریعت نے شوہر کے لئے دو ہی راہ رکھی ہے ۔ ایک خوش اسلوبی کے ساتھ رکھنا (امساک بمعروف ) یا بھلے طور پر شائستگی کے ساتھ چھوڑ دینا ( تسریح باحسان ) اب چوں کہ وہ پہلے طریقہ پر عمل نہیں کر پا رہا ہے تو اسے اس دوسرے راستہ کاانتخاب کر لینا چاہئے اور اگر خود عورت ہی کی طرف سے زیادتی ہو تو زیادہ سے زیادہ اتنا معاوضہ لینا چاہئے جو بطور مہر مرد نے اس کو دیا ہے اس سے زیادہ بہرحال نہ لے اور اگر ابھی مہر ادا ہی نہ کیا ہو تو اس کی معافی کی شرط پر طلاق دے دے (1)
عدت
شوہر سے علیحدگی یا اس کی موت کے بعد شریعت نے ایک مخصوص مدت متعین کی ہے جس میں عورت کسی دوسرے مرد سے نکاح نہیں کرسکتی ، اسی مدت کا نام عدت ہے عدت کا مقصود شوہر سے جدائی پر غم وافسوس کا اظہار ، اس کی موت پر سوگ اور اس بات کا اطمینان کرلینا ہے کہ اب اس عورت کے رحم میں پہلے شوہر کا مادہ بالکل نہیں ہے اس لئے اب اگر وہ دوسری شادی کرے تو اس کا کوئی اندیشہ نہیں ہے کہ نسب میں اختلاط پیدا ہو اور اشتباہ ہو جائے کہ نہ جانے بچہ کس مرد کا ہے ؟ عدت دو طرح کی ہوتی ہے ، طلاق کی عدت اور وفات کی عدت
طلاق کی عدت :
--------------
(1) درمختار 558/2