۸۳
جائے، مکروہ نہیں (۱)۔
خیال ہوتا ہے کہ امام احمد کا نقطہء نظر حدیث اور سنت کے زیادہ قریب ہے اس لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سوائے حج و عمرہ کے ہمیشہ بال رکھے ہیں، بال رکھنا مستقل آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک سنت ہے اور بال کی مقدار ماثور مستقل سنت ہے۔ مشہور حنفی محدث ملا علی قاری کا رحجان بھی اسی طرف محسوس ہوتا ہے کہ بال کا رکھنا بال کے مونڈانے سے بہتر ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت جعفر کے صاحبزادوں کا بال کیوں مونڈایا؟ حالانکہ بال کا رکھنا افضل ہے بمقابلہ بال مونڈانے کے، اس کا ذکر کرتے ہوئے علامہ عینی لکھتے ہیں : و انماحلق رؤسھم مع ان ابقاء الشعر افضل الا بعد فراغ احد السکین (۲)۔
سر کے بال میں سنتِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا عام معمول زلف رکھنے کا تھا، زلف مبارک کبھی کانوں کے لَو تک ہوتی کبھی اس سے نیچے گردن تک اور کبھی کاندھے تک (۳) پہلی صورت کو "وفرہ"، دوسری کو "لمہ" تیسری کو "جمّہ" کہا جاتا ہے۔
حضرت انس کی ایک روایت میں نصف کان تک موئے مبارک کا ذکر ہے (۴) لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ زیادہ تر موئے مبارک کانوں سے نیچے اور مو نڈھوں سے اوپر ہوتا تھا "فوق الجمہ و دون الوفرۃ (۵)۔
-------------------------------------------------------------
(۱) المغنی ۱/۶۵
(۲) مرقاۃ ۴/۴۷۲ باب الترجل الفصل الثانی
(۳) مرقاۃ المفاتیح ۴/۴۷۰
(۴) ابو داؤد باب ماجاء فی الشعر ۲/۵۷۶
(۵) ترمذی عن عائشہ /۳ باب ماجاء فی شعر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم