رشوت
شریعت میں کمائی کے جن طریقوں کی سخت مذمت کی گئی ہے ان میں ایک رشوت بھی ہے۔ رشوت کا لینا اور دینا دونوں حرام ہیں۔ ایک حدیث میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان دونوں پر اپنی زبانِ مبارک سے لعنت بھیجی ہے (۱) ۔
رشوت ظلم نہ کرنے کے لیے حاصل کی جانے والی رقم بھی ہے اور جائز حق دینے پر لی جانے والی رقم بھی (۲) ۔ لینا تو بہر طور حرام ہے ، البتہ اپنی جان و مال ، عزت و آبرو کے تحفظ اور انصاف اور جائز حق کے حصول کے لئے رشوت دینے کی گنجائش ہے (۳) ۔ اسی طرح کسی دشمنِ اسلام کے شر سے حفاظت کے لئے اس کو رشوت دی جائے ، یہ بھی جائز ہے جیسا کہ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم مفسد شعراء کی زبان بندی کے لئے دیا کرتے تھے (۴) ۔
یہ بات بھی ذہن میں رہے کہ اس قسم کی ناجائز رقوم ہدیہ یا انعام کے نام پر دی جائیں تب بھی وہ رشوت ہی ہیں ۔ اسی لئے فقہاء نے لکھا ہے کہ قاضی کے لئے قریبی رشتہ داروں اور وہ لوگ جو پہلے سے تحفہ دینے کے عادی رہےہوں ، انہیں کے تحفے قبول کرنے جائز ہیں ، جو لوگ پہلے سے تحفہ دینے کے عادی نہ ہوں یا دیتے رہے ہوں لیکن اس مقدار میں نہ دیا کرتے ہوں یا قاضی کے اجلاس میں ان کا مقدمہ ہو تو ان کا تحفہ یا دعوت قبول کرنا جائز نہیں (۵) ۔ علامہ شامی رحمہ اللہ نے لکھا ہے کہ یہی حکم گاؤں اور مختلف شعبوں کے ذمہ داروں ، حکومت کی طرف سے مقررہ مفتیوں ، حکومت کے عمال ، مارکيٹ کے ذمہ داران وغیرہ کا بھی ہے ، بلکہ مقروض
--------------------------------------------------------
(۱) ابو داؤد ، کتاب الاقضیہ ، باب فی کراہیۃ الرشوۃ – ترمذی کتاب الاحکام باب ماجاء فی الراشی و المرتشی فی الحکم ۔
(۲) شامی ۴/۳۰۳ ۔
(۳) الاشباہ و النظائر لابن نجیم ص :۱۵۸ ۔ قاعدہ : ماحرم اخذہ حرم عطاؤہ ۔
(۴) درمختار علیٰ ہامش الرد ۵/۲۷۲ ،
(۵) درمختار ۴/۳۱۱ ۔