میں جیسا کہ مذکور ہوا، شریعت ایک ناپسندیدہ ضرورت سمجھ کر اس کی اجازت دیتی ہے۔
ابتدائی تدبیریں
تاہم قرآن یہ بھی ہدایت دیتا ہے کہ طلاق پہلے ہی مرحلہ میں نہیں دینی چاہیے، بلکہ ایسی تمام صورتوں کو عمل میں لانا چاہیے جن کے ذریعہ اصلاح حال ہو سکے اور آپسی اختلاف دور ہو جائے، اگر اس طرح نباؤ ہو جائے تو طلاق نہ دے۔ ارشاد ہے :
"جن عورتوں سے تم کو نافرمانی کا اندیشہ ہو ان کو سمجھاؤ اور بستروں پر ان کو علیٰحدہ کر دو، پھر اگر وہ تمہاری فرمانبردار ہو جائیں تو ان پر سختی کے لئے بہانہ نہ ڈھونڈو" ۔ (نساء : ۶)۔
اس آیت سے معلوم ہوا کہ سب سے پہلے وعظ و نصیحت اور سمجھاؤ سے کام لیا جائے۔ اگر یہ کانی نہ ہو تو اپنی ناراضگی کے سنجیدہ اظہار کے لئے اپنی خوابگاہ اور بستر علیٰحدہ کر لو۔ یعنی وقتی طور پر اس سے مباشرت کرنا چھوڑ دو۔ پھر اگر یہ گریز بھی عورت کی اصلاح نہ کر سکے تو مناسب حدووں میں اس کی فطری کمزوری اور نزاکت کو سامنے رکھتے ہوئےتھوڑی سے مار پیٹ بھی کر سکتے ہو۔ اب اگر اس کی اصلاح ہو جائے تو ایک بہتر رفیقِ زندگی کی طرح اس کے ساتھ رہو۔ ان تمام صورتوں کو اختیار کرنے کے باوجود اصلاحِ حال نہ ہو سکے اور عورت بجا نافرمانی و زیادتی پر آمادہ ہو تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ آپس میں اس بگاڑ کو دور کرنے سے قاصر ہیں۔ لہذا ان حالات میں قرآن کا حکم ہے :
"اگر ان دونوں میں اختلاف کا شدید اندیشہ ہو تو مرد اور عورت دونوں کی طرف سے ایک ایک پنچ "حَکم) کو بھیجو۔ اگر یہ دونوں واقعی اصلاح چاہیں گے تو اللہ تعالیٰ ضرور ان دونوں کے درمیان موافقت پیدا کر دے گا، بے شک اللہ علیم و خبیر ہے۔" (نساء:۳۵)۔