مناسب دلیلیں موجود ہیں ۔ احناف کے پیش نظر وہ روایت ہے جس میں فرمایا گیا ہے کہ مہر دس سے کم نہ ہونا چاہیے ۔ لا مہر اقل من عشرۃ دراہم (۱)
مہر کی تعیین میں اعتدال ہونا چاہئے ، نہ مہر اتنا معمولی ہو کہ اس کی کوئی قدر باقی نہ رہے ، نہ اتنا زیادہ ہو کہ اس کی ادائیگی دشوار ہوجائے اور مرد کی معاشی حالت اس کی متحمل نہ ہو ، سیدنا حضرت عمرؓ نے مہر کی کثرت میں غلو کو بہت ناپسند فرمایا ہے ، اور فرمایا کہ مہر کی کثرت اگر فخر و شرافت کی بات ہوتی تو ازواج مطہرات کا مہر زیادہ ہوتا (۲) ازواج مطہرات کا مہر بالعموم پانچسو درہم تھا (۳) اور صاحبزادی رسول سیدہ فاطمہ کا مہر چار سو اسی (۴۸۰) درہم (۴) ۔ پانچسو درہم موجودہ ۱۰ گرام کے تولہ کے حساب سے ڈیڑھ کلو ۳۰ گرام اور نوسو ملی گرام چاندی ہوتا ہے ۔ ظاہر ہے کہ اس مقدار میں مہر کی تعیین زیادہ بہتر ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ازواج مطہرات ، بنات طاہرات ، اور حضرات صحابیات کے مہر اسی طرح چاندی یا سونے سے مقرر کئے جاتے تھے ، پس روپیہ یا کسی او رشکل میں مہر مقرر کرنے کی بجائے سونے چاندی کی صورت میں مہر کی تعیین سنت سے قریب بھی ہے اور عورت کے لئے قرین انصاف بھی کہ سکوں کی مقدار دن بدن گھٹتی جاتی ہے اور سکوں میں مقرر کیا ہوا مہر ایک عرصہ بعد اپنی قدر کھو دیتاہے۔
مہر کے احکام
اگر نکاح کے وقت مہر مقرر نہ کیا گیا تب بھی نکاح درست ہوتا ہے
------------------------------------------------------
(۱) الداریۃ فی تخریج الہدایۃ ۲؍۳۴۴
(۲) مجمع الزوائد ۴؍۲۸۳ باب الصداق
(۳) مشکوۃ ۲؍۲۷۷
(۴) مجمع الزوائد ۴؍۲۸۳