ذبیحہ کے سلسلہ میں قرآن مجید کی یہ آیت سب سے زیادہ جامع اور احکام میں صریح ہے، انہی میں سے ہر ایک پر اس وقت گفتگو کی جانی ہے۔
مُردار
"میتۃ" سے مراد" مردار ہے، چاہے وہ طبعی موت مرا ہو یا ذبح کے شرعی طریقے کی تکمیل کے بغیر انسانی ہاتھوں اس کی موت ہوئی ہو (۱) حیوان کے وہ اجزاء جسم جن میں موت سرایت کرتی ہے اور جن سے زندگی اور موت کا تعلق ہے ان میں سوائے چمڑے کے تمام چیزوں گوشت وغیرہ کی حرمت پر اتفاق ہے، البتہ جسم کے وہ اجزاء جن میں حیات سرایت نہیں کرتی یعنی بال، اون اور ہڈی وہ پاک ہیں اور ان سے فائدہ اٹھانا جائز ہے۔ (۲)
البتہ مردار کے چمڑے کو دباغت دیکر اس سے فائدہ اٹھانا جائز ہے یا نہیں؟ اس میں فقہاء کے درمیان اختلاف ہے۔ ------------ اکثر فقہاء کے نزدیک چمڑے کی دباغت یعنی مٹی، نمک یا کسی بھی کیمیکل طریقہ سے صاف کرنے کے بعد وہ پاک ہو جاتا ہے اور اس کا استعمال نیز خرید و فروخت جائز ہو جاتی ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی گذر حضرت میمونہ کی مردار بکری پر ہوا تو فرما : ھلا اخذتم اھابھا تم نے اس کا چمڑا کیوں نہ لے لیا (۳) ترمذی شریف کی روایت ہے کہ جس چمڑے کو دباغت دی جائے وہ پاک ہو جاتا ہے ایما اھاب دُبع فقد طھر (۴) مالکیہ کے نزدیک دباغت کے بعد بھی مردار کے چمڑے
-----------------------------------------------------------------
(۱) احکام القرآن للجصاص ص ۱/۱۰۸۔
(۲) قرطبی ۲/۲۱۹، تفسیر کبیر ۳/۱۵، احکام القرآن للجصاص ۱/۲۱۔
(۳) قرطبی ۲/۲۱۸۔
(۴) ترمذی عن ابن عباس و قال حسن صحیح۔