اور صحابہ کھڑے ہو گئے تو فرمایا کہ یہ عجمیوں کا طریقہ ہے، اس طرح کھڑے نہ ہوا کرو (۱)، لیکن اس کو ایک مستقل رسم اور رواج بنائے بغیر کبھی جوش محبت میں کھڑا ہو جائے تو مضائقہ نہیں۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا راوی ہیں کہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا جب تشریف لاتیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان کے لیے کھڑے ہوتے، یہی عمل حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھا (۲)۔ غزوۂ بنو قریظہ کے موقع سے جب حضرت سعد رضی اللہ عنہ بحیثیتِ حکم تشریف لائے تو خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ سے کھڑے ہونے کو کہا "قومُوا الیٰ سیّدکم" (۳)۔ لیکن کسی شخص کے اندر اس خواہش کا پیدا ہو جانا کہ لوگ اس کے لئے کھڑے ہوں اور لوگ کھڑے نہ ہوں تو اس کا بُرا ماننا، سخت مذموم اور ناپسندیدہ ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایسا شخص جہنم کو اپنا ٹھکانہ بنا رہا ہے (۴)۔ افسوس کہ بعض خانقاہوں اور مشائخ نے اس کو اپنے آداب میں داخل کر لیا ہے۔ ع
چوں کفر از کعبہ برخیز و کجا ماند مسلمانی؟
بوسہ :
بعض اوقات انسان ملاقات کے وقت پاکیزہ جذبات کے ساتھ جوش محبت میں بوسہ لے لیتا ہے۔ اس طرح کا عمل بعض اوقات حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی ثابت ہے۔ فقہاء نے احادیث اور شریعت کے اصول کو سامنے رکھ کر اس سلسلہ میں احکام مقرر کئے ہیں :
------------------------------------------------------
(۱) ابو داؤد عن ابی امامہ، باب الرجل یقوم للرجل یعظمہ، بذٰلک۔
(۲) ابو داؤد، باب فی القیام۔
(۳) حوالۂ مذکور۔
(۴) ابو داؤد، باب الرجل یقوم للرجل۔