آخرت، اپنے پیغمبر کی زندگی کے ایک ایک حرف کی حفاظت اور دین کی ہر ضرورت پر نصرت ومدد اور اپنی عمومی زندگی میں بے نفسی ، نمائش و ریاسے دوری اور عہدۂ وجاہ سے بہ رضا ورغبت مہجوری اور اسلام کی دعوت واشاعت کے لئے بے پناہ سرگرمی اور کاوش وسعی، اخلاقی بلندی اور وسیع القلبی، زبان ودل کی رفاقت اور نفاق و ظاہرداری سے اجتناب وغیرہ اوصاف میں پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کی کوئی نظیر ومثال نہیں ملتی ۔ رضی اللہ تعالی عنہم ورضوا عنہ ۔
ان صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم پر بے اعتمادی کا اظہار اور ان کے بارے میں زبان کھولنا، یا ان کے اختلافات و مشاجرات پربحث کرنا محض اساس دین کو نقصان پہنچانے کے مرادف ہے اور خود اسلام کے نام پر اسلام بیخ کنی ہے۔ کیوں کہ جب اس دیوار کی خشت اول ہی کمزور ٹھہرے تو اس بناء ناپائدار پرکون بھروسہ کرے گا ۔ اسی لئے سلف صالحین نے صحابہ رضی اللہ تعالی عنہم کے بارے میں اور ان کے اختلافات پر گفتگو کو منع کیاہے اور اہل سنت والجماعت کااجماع ہے کہ خلفاء اربعہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ ، حضرت عمر رضی اللہ عنہ ، حضرت عثمان رضی اللہ عنہ اور حضرت علی رضی اللہ عنہ کے بعد اسلام میں تقدم وتاخر اور کم وبیش قربانیوں کے اعتبار سے درجات کا تفاوت تو ضرور ہے لیکن پوری جماعت صحابہ رضی اللہ عنہم تمام امت سے افضل (1) اور ان کا اختلاف اصل میں فکر واجتہاد کا اختلاف ہے، ان میں جو صائب ہووہ تو "صائب" ہی ہے اور جس سے غلطی ہوئی ہو تو وہ بھی محض خطاء اجتہادی ہے، نہ کہ خدا نخواستہ ضلالت و گمراہی ۔
ادھر گذشتہ نصف صدی میں بعض ایسے لٹریچر اردو زبان میں
________________________________________
(1) شرح فقہ اکبر، ص : 0178