رہن سے فائدہ اُٹھانے کی اجازت دی ہے لیکن یہ صحیح نہیں ہے کیوں کہ سود کا حاصل کرنا اور اس سے فائدہ اُٹھانا بہرحال ناجائز ہے گو رضامندی اور خوشی سے حاصل کیا جائے ۔ خاتم الفقہاء علامہ شامیؒ نے اس پہلو پر توجہ کی ہے جس کا خلاصہ یہ ہے کہ فقیہ عبداللہ سمرقندی مالک کی اجازت سے بھی سامانِ رہن سے فائدہ اُٹھانے کو ناجائز قرار دیتے تھے ، پھر بعض علماء نے نقل کیا ہے کہ اگر قرض دیتے وقت سامانِ رہن سے فائدہ اُٹھانے کی شرط لگا دی ہو تب بھی ناجائز ہوگا اور سود ہوگا ورنہ نہیں ، علامہ شامیؓ نے اس ’’ اگر مگر ‘‘ پر خود تبصرہ کیا ہے اور لکھا ہے :
والغالب من احوال الناس انہم انما یریدوں عند الدفع الانتفاع ولولاہ لما اعطاہ الدراہم وہذا بمنزلۃ الشرط لان المعروف کالمشروط وھو مما یعین المنع (۱).
لوگوں کے عمومی حالات یہ ہیں کہ لوگوں کا مقصود دے کر نفع حاصل کرنا ہوتا ہے ، ایسا نہ ہو تو وہ طالب قرض کو درہم نہ دیں اور یہ شرط کے درجہ میں ہے اس لئے کہ رواج شرط کے درجہ میں ہے اور یہ بات اس صورت کے ممنوع ہونے کو متعین کردیتا ہے ۔
پس قول فیصل ، رائے صحیح ، مذہب محتاط اور اسلام کے اصول عامہ سے ہم آہنگ یہی بات ہے کہ سامانِ رہن سے کسی طرح کا فائدہ اُٹھانا قرض دہندہ کے لئے جائز نہیں ، نہ مقروض کی اجازت سے اور نہ اس کی اجازت کے بغیر ۔ فی زمانہ رہن کی زمین کی کاشت و پیداوار اور مکان کی رہائش سے انتفاع کا جو رواج ہوگیا ہے وہ قطعا ناجائز خلاف شریعت اور سود میں داخل ہے ۔
فروخت بہ شرط واپسی :
آج کل شہروں میں بعض لوگ ایسا کرتے ہیں کہ جتنا روپیہ قرض لینا یا دینا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) شامی ۵ / ۱۱ ، ۳۱۰