کا اظہار واجب ہے (۱)۔ یہاں تک کہ اگر کوئی شخص عیب چھپا لے اور خریدار کو اندھیرے میں رکھے۔ بعد کو چل کر خریدار اس سے واقف ہو تو خریدار کو اس معاملہ کے باقی رکھنے یا ختم کر دینے کا اختیار حاصل ہوتا ہے، جس کو فقہ کی اصطلاح میں "خیارِ عیب" کہا جاتا ہے۔
جھوٹ اور دھوکہ
اسی سے قریب تر دوسرا حکم یہ ہے کہ خرید و فروخت کے کسی معاملہ میں دھوکہ دہی سے کام نہ لیا جائے اور اپنا سامان فروخت کرنے کے لیے جھوٹ نہ بولے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "جو جھوٹ بول کر اپنا سامان فروخت کرے، اللہ تعالیٰ اس کی طرف قیامت کے دن نگاہِ رحمت نہیں فرمائیں گے۔" (۲)۔
خرید و فروخت کی مختلف صورتیں ہیں جن کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسی وجہ سے منع فرمایا۔ مثلاً آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے "تلقی جَلب" سے منع فرمایا (۳)۔ "تلقی جَلب" یہ ہے کہ قافلۂ تجارت کے شہر میں داخل ہونے سے پہلے ہی اس سے سامان کم دام میں خرید کر لیا جائے اور اسے بازار کی قیمت کے بارے میں غلط باور کرایا جائے۔ ظاہر ہے یہ اصحابِ مال کے ساتھ دھوکہ ہے۔ اسی قسم کے ایک معاملہ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے "نجش" یا "تناجش" سے تعبیر کیا (۴)۔ یعنی خریدنے کا ارادہ تو نہ ہو، لیکن دوسرے گاہکوں کو دھوکہ دینے کی غرض سے ایک شخص خواہ مخواہ قیمت
------------------------------------------------------------------
(۱) احیاء العلوم ۷۶/۲، و قال العراقی اخرجہ الحاکم و قال صحیح الاسناد۔
(۲) ترمذی عن ابی ذر، کتاب البیوع باب ماجاء فی من حلف علیٰ سلعۃ کاذباً۔
(۳) مسلم عن ابی ہریرہ، کتاب البیوع، باب تحریم تلقی الجلب۔
(۴) حوالہ سابق، باب تحریم النجش۔