یہاں بھی دراصل وہی بات پائی جاتی ہے کہ حاصل ہونے والا نفع کسی محنت کا معاوضہ نہیں ہے اور جو نقصان پہنچا ہے اس کی کوئی معقول اور منصفانہ وجہ نہیں ہے ۔ جس شخص کو لاٹری کے ایک لاکھ روپے مل گئے ، اس نے یہ رقم ذاتی محنت اور جہد و کاوش سے حاصل نہیں کی ہے اور جس کے پانچ روپے رائیگاں گئے ، اس کے یہ پانچ روپے کسی معقول وجہ کے بغیر اس ایک لاکھ روپے حاصل کرنے والے کے ہاتھ چلے گئے ۔
اس کو "شرکت" اور "مضاربت" پر قیاس نہیں کرنا چاہیے ۔ وہاں نفع اور نقصان معاملہ کے ہر دو فریق کو یکساں طور پر پہنچتا ہے ۔ ایسا نہیں ہوتا کہ ایک کو نفع ہو اور دوسرا نقصان اٹھائے ، اس طرح نفع اور نقصان کا مدار "اتفاق" نہیں ہے بلکہ ان کی ذاتی محنت اور کاوش ہے ، جب کہ قمار میں ایک فریق مکمل فائدہ اٹھاتا ہے اور دوسرا فریق مکمل نقصان ۔ نیز نفع و نقصان کی بنیاد محنت نہیں ہے بلکہ اتفاق ہے ۔
قمار کے نقصانات :
قمار کے جو اخلاقی اور تمدنی اثرات و نتائج مرتب ہوتے ہیں وہ بجائے خود ایسے ہیں کہ ان سے منع کیا جائے ۔ اس کی وجہ سے حرص و لالچ پیدا ہوتی ہے ۔ آدمی خود غرض اور ہوس پرست بن جاتا ہے ، باہم حسد و ڈاہ کی نفسیات جاگتی ہے ، آپس میں نفرت و عناد جڑ پکڑتی ہے اور سعی و محنت کے بجائے اسی طرح بیٹھے بٹھائے کھانے کمانے کا جذبہ پروان چڑھتا ہے ۔ حضرت شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کے الفاظ ہیں :
" قمار سے حاصل ہونے والا مال حرام اور باطل ہے اس لئے کہ یہ لوگوں سے