ایضا ( بدائع الصنائع 5؍40 )
ذبح کی بنیادی شرط
حلال جانوروں کو بھی شریعت اس وقت کھانے کی اجازت دیتی ہے جب کہ اس کو شرعی طور پر ذبح کرلیا گیا ہو ، اسلام کے اس حکم کا رشتہ ایک طرف صحت انسانی اور دوسری طرف اصلاح عقیدہ دونوں سے ہے ۔ جانور کو صحیح طور پر ذبح نہ کیا جائے کہ اس کے جسم کا بہتا ہوا خون پوری طرح خارج نہ ہو جائے اور جسم کے اندر ہی منجمد ہو جائے تو اس میں ایک طرح کی سمّیت پیدا ہو جاتی ہے اور یہ صحت کے لیے سخت مضر ہو جاتا ہے ۔ دوسرے اقوام عالم اپنے اپنے عقیدہ اور تصور کے مطابق جانوروں کی قربانی اور دیویوں دیوتاؤں پر چڑھاوے دیتے رہے ہیں دنیا کا شاید کوئی مذہب ہو جہاں کسی نہ کسی طور پر اپنے مذہبی تصورات کے ساتھ جانوروں کے بھینٹ چڑھانے کا عمل نہ پایا جاتا ہو ۔ اسلام کہ سراپا توحید کا داعی ہے اس نے ہر اس عمل کو جو شرک کا مظہر تھا ، توحید کے سانچہ میں ڈھالا ہے ، اس نے نماز جیسی روزانہ پانچ وقت پڑھی جانے والی عبادت رکھی مگر اس کے لئے نہ سورج کو قبلہ بنایا گیا نہ دوسرے مذہب کی طرح کسی خاص سمت کو ، بلکہ علامتی طور پر خود کعبۃ اللہ کو قبلہ بنایا گیا جس کی بناء ہی توحید کے لئے ہوئی تھی ، اسلام کے پہلے بعض قومیں پانسوں اور فال کے ذریعے قسمت کا حال معلوم کرتی تھیں ، شریعت نے اس کے لئے استخارہ کی نماز رکھی ، بارش کے لئے مشرکانہ اعمال و رسوم کئے جاتے تھے ، اس کی جگہ صلوۃ استسقاء مقرر ہوئی ، ٹھیک اسی طرح قربانی باقی رکھی گئی ۔ نذر ونیاز کا دروازہ بند نہیں کیا گیا اور جانوروں کے ذبح کئے جانے کی ایک فطری ضرورت سے پہلو تہی نہیں برتی گئی مگر اس طور پر کہ اسی مشرکانہ عمل کو عین توحید وایمان کا اظہار بنا دیا