اول تو تعامل کو سامنے رکھ کر اس مسئلہ میں بھی مالکیہ کی رائے اختیار کر لی جائے تو نامناسب نہیں، دوسرے ایسا معلوم ہوتا ہے کہ یہ مسئلہ احناف کے یہاں متفق علیہ نہیں ہے، صاحب ہدایہ کا کہسا ہے کہ یہ حسن بن زیاد کی روایت ہے ورنہ ظاہر روایت کا تقاضا ہے کہ اس کو جائز ہونا چاہیے، اس لئے کہ جب وہ متعینہ مقدار فروخت کی جا سکتی ہے تو فروخت سے اس کا استثناء بھی کیا جا سکتا ہے "ما یجوز ایراد العقد علیہ بانفرادہ یجوز استثناءہ من العقد۔" (۱)۔
مولانا تھانوی نے بھی اس "جنس" یا "ڈالی" کو تعامل کی بنا پر جائز قرار دیا ہے۔ (۲)۔
حقوق کی خرید و فروخت :
ہمارے زمانہ میں اشیاء اور املاک کی طرح حقوق بھی خریدے اور بیچے جاتے ہیں، بلکہ بعض حقوق تو ایسے ہیں کہ معاشی اعتبار سے ان کی اہمیت عام اموال و جائیداد کے مقابلہ کہیں زیادہ بڑھ گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ ایسے حقوق کی خرید و فروخت، اس کا معاوضہ لینا اور دینا جائز ہے یا نہیں؟اگر جائز ہے تو کون سے حقوق اس لائق ہیں کہ ان کی خرید و فروخت کی جا سکے؟ اس سلسلہ میں حاصل یہ ہے کہ بعض حقوق محض دفعِ ضرر کے لئے دیئے گئے ہیں۔ حالانکہ اصلاً انسان کو یہ حقوق حاصل نہ ہونے چہیے تھے۔ مثلاً حقِ شفعہ، حقِ حضانت و پرورش، شوہر پر عورت کا حقِ عدل، وغیرہ۔ یہ حقوق ضرورۃً انسان کو دیئے جاتے ہیں، اس لئے اگر کوئی شخص ان حقوق سے دستبردار ہو جاتا ہے تو یہ اس بات کی علامت ہے کہ وہ ان حقوق کا ضرورتمند نہیں ہے، لہذا اب وہ ان حقوق کے باب میں حقدار ہی باقی نہ رہا، ایسے حقوق کی نہ خرید و فروخت درست
----------------------------------------------------------------
(۱) ہدایہ ۱۱/۳۔
(۲) امداد الفتاویٰ۔