ختنہ اکثر فقہاء کے نزدیک سنت ہے۔یہی رائے فقہاء احناف کی ہے۔ امام شافعی رحمہ اللہ کے مشہور قول کے مطابق مرد و عورت دونوں کے لئے واجب اور امام احمد کے نزدیک مردوں کے لیے واجب اور عورتوں کے لیے سنت ہے۔ فقہاء احناف سے عورتوں کے ختنہ کے سلسلہ میں دو رائیں منقول ہیں۔ ایک سنت ہونے کی، دوسرے مستحب (مکرمہ) ہونے کی (۱) اور اس کی تائید حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث سے ہوتی ہے "الختان سنۃ للرجال و مکرمۃ للنساء" ختنہ مردوں کے لیے سنت اور عورت کے لیے مستحب ہے (۲)۔
مردوں کے لئے ختنہ کی صورت یہ ہے کہ حشفہ کے اوپر کے چمڑے کاٹ دیئے جائیں اور عورت کے ختنہ کی صورت یہ ہے پیشاب کے مخرج کے اوپری حصہ کے اُبھرے ہوئے چمڑے کو کاٹ دیا جائے (۳) جس سے عورت کی شہوت میں کمی واقع ہوتی ہے۔ گرم ممالک میں غالباً اس کا رواج زیادہ ہے۔ اہل سیر کی روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ جیسے مردوں میں حضرت ابرہیم علیہ السلام سے ختنہ کی ابتدا ہوئی، اسی طرح عورتوں میں حضرت ہاجرہ اُم اسماعیل علیہ السلام سے واللہ اعلم (۴)۔
ختنہ کی عمر
لڑکوں کا ختنہ بہتر ہے کہ سات سال سے ۱۲ سال کی عمر کے درمیان کیا جائے (۵)۔ فقہاء شوافع کا خیال ہے کہ ساتویں دن یا چالیس دن کے اندر اور زیادہ سے زیادہ ساتویں سال میں ختنہ کر دینا مستحب ہے (۶)۔
------------------------------------------------------
(۱) ملاحظہ ہو شرح مہذب ۱/ ۳۰۱-۳۰۰، الاتحاف ۶۶۵/۲، عالمگیری ۳۵۷/۵۔
(۲) رواہ احمد والبیہقی۔۔۔ باسناد ضعیف، اتحاف ۶۶۵/۲۔
(۳) شرح مہذب ۱/ ۳-۳۰۲۔
(۴) الاتحاف بحوالۂ سہیلی ۶۶۸/۲۔
(۵) عالمگیری ۳۵۷/۵۔
(۶) شرح مہذب ۳۰۳/۱۔