انگشت شہادت اور درمیانی انگلی میں پہننے سے صراحۃً منع فرمایا (۱) اور ابہام و بنصر میں کبھی پہننا ثابت نہیں (۲)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم انگوٹھی کا استعمال چوں کہ ازراہِ ضرورت ہی فرماتے تھے اور زینت کا پہلو پیشِ نظر نہیں تھا اس لئے نگینہ کے حصّہ کو اندر کی طرف رکھنے کا معمول تھا (۳)۔ انگوٹھی پر "محمد رسول اللہ" کا نقش تھا اور ہدایت تھی کہ اس نقش پر کوئی اور انگوٹھی نہ بنائے (۴)۔ کہ اس سے التباس و مغالطہ کا اندیشہ تھا، غالباً آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ایک سے زیادہ انگوٹھیاں تھیں، بعض خالص چاندی کی اور بعض لوہے کی جس پر چاندی کا پتر چڑھایا ہوا تھا (۵)۔
انگوٹھی سے متعلق احکام
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے معمولات مبارکہ سے معلوم ہوا کہ مَردوں کے لئے صرف چاندی ہی کی انگوٹھی جائز ہے۔ گو بہتر انگوٹھی کا نہ پہننا ہی ہے اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ضرورتاً ہی انگوٹھی استعمال فرمائی تھی، ابتدا سے انگوٹھی نہیں پہنی۔ اسی لئے بعض تابعین سے منقول ہے کہ تین ہی اشخاص انگوٹھی پہنے ہیں، ۱-سلطان، ۲-قاضی اور ۳-بے وقوف (۶)۔ بے وقوف سے مراد وہ شخص ہے جو بلا ضرورت انگوٹھی کا استعمال کرے۔
فی زمانہ چونکہ انگوٹھی کے بجائے مستقل مہریں بننے لگی ہیں، اس لئے امیر و قاضی اور عہدیداروں کے لئے بھی انگوٹھی کی حاجت نہیں رہی، انگوٹھی دائیں اور
---------------------------------------------------------------
(۱) مسلم عن علی ۲/۱۹۷۔
(۲) مرقاۃ المفاتیح ۴/۴۴۵۔
(۳) بخاری باب من جعل فص الخاتم فی بطن کفہ، عن بن عمر ۲/۸۷۳۔
(۴) بخاری عن انس، باب قول النبی صلی اللہ علی وسلم لا ینقش علی نقش خاتمہ ۲/۸۷۳۔
(۵) دیکھئے : ابو داؤد عن ایاس بن حارث۔ باب ماجاء فی خاتم الحدید ۲/۵۸۰۔
(۶) شامی ۵/۲۳۱۔