سے مکمل احتراز کرنا چاہئے ، خوشبو نہ لگائے ، شوخ کپڑے نہ پہنے ، زیورات بھی استعمال نہ کرے ، کریم ، پاؤڈر ، سینٹ اور عطریات وغیرہ سے پرہیز کرے اور اسی مکان میں عدت گذارے جس میں طلاق کا واقعہ پیش آیا ہے ، کہیں دوسری جگہ نہ جائے اور نہ اس کو نکاح کا پیغام دیا جائے (1)
وفات کی عدت
اسلام سے پہلے زمانہ جاہلیت میں عدت گزارنے کے بڑے بھیانک ، انسانیت سوز اور دردناک طریقے رائج تھے ، ایسی عورتوں کو پورے سال ایک تنگ وتاریک اور بدبودار کمرے میں بند کردیا جاتا تھا اور ان پر جانوروں کی غلاظتیں ڈالی جاتی تھیں نیز ان بدنصیب اور مصیبت زدہ بیوہ عورتوں کو منحوس اور نامبارک تصور کیا جاتاتھا ، ان پر زندگی بھر کے لئے بیوگی کی حالت میں دنیا کی تمام نعمتیں حرام ہوجاتی تھیں ، ہندو مذہب میں تو بیوی اپنے آپ کو شوہر کے ساتھ زندہ جلاڈالنا مذہبی اور منصبی فریضہ ہی سمجھتی تھی ، اسلام نے آکر اس غیر مہذب اور غیر انسانی وحشیانہ طریقہ کی اصلاح کی ، ایک طرف انسانیت کی اس مظلوم صنف عورت پر ہونے والے مظالم کا سدباب کیا ، دوسری طرف شوہر کے احسانات کی رعایت اور اس کے بلند درجہ کا احترام ملحوظ رکھا ۔عورت کو ہونے والے فطری غم واندوہ کے اظہار کی جائز صورت نکالی اور نسب کو اختلاط سے محفوظ رکھا، شوہر کے انتقال کے بعد سوگ کے بطور جو عدت واجب ہوتی ہے وہ بالغہ اور نابالغہ دونوں پر ہے ، طاہے ابھی یکجائی کی نوبت آئی ہو یا نہیں (2)
اس عدت میں بھی بالغہ عورتوں کے لئے زیبائش وآرائش ، زیور ، خوشبو ،
---------------------
(1) الفتاوی الہندیہ137،138/2 الباب الرابع عشر
(2) خلاصۃ الفتاوی 117/2