صاحب تعمیر کے لئے وبال ہے، سوائے اس کے جو اس کے لئے ضروری ہو (۱)۔
البتہ چوں کہ مختلف لوگوں کی ضروریات الگ الگ ہو سکتی ہیں، مزاج و مذاق میں بھی تفاوت ہوتا ہے نیز ہر زمانہ اور عہد کے تعمیری انداز جداگانہ ہوتے ہیں، موسموں کا فرق بھی تعمیر کے انداز میں فرق پیدا کرتے ہیں، اس لئے مکانات کے لئے کوئی خاص وٖضع اور حد مقرر نہیں کی جا سکتی تھی، خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی ثابت ہے کہ حجرۂ اقدس پر بالا خانہ بھی بنائے ہوئے تھے (۲)۔
مساجد کی تزیین و آرائش
ذاتی تعمیرات کے علاوہ خود مسجد کی تعمیر میں بھی غیر معمولی آرائش کو پسند نہیں کیا گیا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حد تک اس سے منع فرمایا ہے۔ ایک روایت میں آپ نے اسے قیامت کی علامت قرار دیا ہے کہ لوگ مساجد کی تزئین وسعت و خوبصورتی اور بلندی میں ایک دوسرے پر فخر کرنے لگیں (۳)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد میں خود مسجد نبوی کی دیواریں کچی اینٹوں کی تھیں، چھت کھجور کی ٹہنیوںکی اور ستون بھی کھجور کے تھے۔ حضرت ابو بکر و عمر کے عہد میں مسجد میں توسیع ہوئی لیکن تعمیری سامان اس کا بھی یہی رہا۔ حضرت عثمان غنی رضی اللہ عنہ نے اپنے عہد خلافت میں عمدہ منقش پتھر اور گچ کی دیواریں بنائیں، ساگوان کی چھت ڈالی اور منقش پتھروں کے ستون لگائے (۴)۔ مسجد نبوی کی اس مرحلہ وار ارتقاء نے جہاں یہ بات بتائی کہ مساجد کی تعمیر میں حد سے زیادہ تکلف و تزین اور تفاخر مناسب
------------------------------------------
(۱) کل بنائ وبال علی صاحب الا مالا بدلہ - ابو داؤد، باب فی البناء، کتاب الادب ۲/۷۱۰،
(۲) ابو داؤد، باب فی اتخاذ الغرف عن ابن سعید المزنی ۲/۷۱۱۔
(۳) ابو داؤد باب فی بناء المسجد ۱/۶۵ و حاشیہ بحوالہ ملا علی قاری ۱/۶۵، نسائی ۱/۱۱۲، المباحات فی المساجد۔
(۴) حوالۂ مذکور۔