کی تعیین کے لئے ناحق مشقت اٹھائی ہے۔ اصل میں شریعت کی نگاہ میں اہمیت ذریعہ معاش کے انتخاب کی نہیں بلکہ طلب معاش میں حلال و حرام کے حدوں پر قائم رہنے کی ہے۔ ابن حجر رحمہ اللہ نے بھی اسی کی طرف اشارہ کیا ہے کہ "قد یختلف باختلاف الاحوال والاشخاص" یعنی حالات اور اشخاص کے فرق کے ساتھ احکام میں بھی فرق ہو سکتا ہے (۱)۔
بعض ممالک ایسے ہیں کہ جہاں کی زمین پیداوار کے لیےکم موزوں ہے اور وہاں غذائی اشیاء کی کمی ہے تو ظاہر ہے کہ ایسی جگہ زراعت کی اہمیت زیادہ ہو گی کہ یہ انسان کی سب سے بنیادی ضرورت کو پورا کرتی ہے۔ بعض علاقے بازار اور کاخانوں سے دُور ہوتے ہیں۔ اگر تجارت کے ذریعہ اشیاء ضروریہ وہاں نہ پہنچ پائیں تو عوام سخت مشکلات میں پڑ جائیں، فی زمانہ صنعت کی اہمیت بہت بڑھ گئی ہے اور انسان کی شخصی اور اجتماعی زندگی اور ملکوں کی قومی اور دفاعی ضروریات کا اس پر اس درجہ انحصار ہے کہ ماضی میں اس کا تصور بھی دشوار تھا۔ حالات اور ضروریات کے اس فرق کے لحاظ سے ظاہر ہے کہ مختلف حالات اور مقامات میں ذریعہ معاش کی اہمیت اور اسی نسبت سے اس کی فضیلت میں بھی فرق واقع ہو گا۔
تجارت کی اہمیت
دوسرے ذرائعِ معاش کی طرح تجارت کو بھی اسلام میں بہت زیادہ اہمیت دی گئی ہے، گزر چکا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے امانتدار تاجر کو انبیاء، شہداء اور صدیقین کا ہم درجہ قرار دیا، تجارت کی فضیلت کے لئے یہی کافی ہے کہ خود
---------------------------------------------------------
(۱) فتح الباری ۴/۳۰۴۔