۴۳۷
سفر :
رسُول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ جامعہ اور اسوۂ مبارکہ میں جہاں حضر اور قیام کے احکام ہیں، وہیں سفر اور غریب الوطنی کی زندگی کے لئے بھی روشنی موجود ہے۔ بے مقصد سفر کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پسند نہیں فرمایا، اس لئے سفر کا مقصد جونہی حاصل ہو جائے اپنی جائے سکونت کو واپس آ جانا چاہیے۔ (۱) سفر کے لیے نہایت اہم چیز رفقاء سفر ہیں، رسُول اللہ نے تنہا سفر کو پسند نہیں فرمایا۔ (۲)۔ بہتر ہے کہ کم سے کم تین آدمی سفر کریں اور تین میں سے ایک کو امیر منتخب کر لیں (۳)۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس بات کو زیادہ بہتر قرار دیا کہ رفقاء سفر کم سے کم چار ہوں (۴)۔
دراصل زمانۂ قدیم میں آجکل کی طرح سفر کے ذرائع میسر نہیں تھے۔ قافلوں کی شکل میں سفر ہوتا تھا اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قافلہ کم سے کم تین آدمیوں سے بنتا ہے (۵)۔ اس زمانے میں حفاظت و صیانت کے نقطۂ نظر سے قافلوں کی شکل میں سفر کرنا ضروری تھا، موجودہ زمانے میں بسیں، ٹرینیں اور جہاز وغیرہ بجائے خود قافلہ کے حکم میں ہے۔
جب آدمی سفر شروع کرے تو لوگوں کو اسے دُعا دینی چاہیے۔یہ دعاء خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مختلف الفاظ میں منقول ہے، دعاء کے الفاظ یہ ہیں :
-------------------------------------------------------
(۱) مسلم، باب السفر قطعۃ من الاداب۔
(۲) ابو داؤد، باب فی الرجل یسافر وحدہ۔
(۳) احیاء العلوم ۲۵۲/۲۔
(۴) حوالۂ سابق۔
(۵) تخریج عراقی علی الاحیاء حوالۂ مذکور۔