ہاں بعض اوقات خصوصی طبی ضروریات کے تحت یہ بات درست ہے کہ متعلق افراد ضرورۃً ضبطِ ولادت کی بعض صورتیں اختیار کر لیں۔ ضبط ولادت کی مختلف صورتیں ہیں اور ان کے احکام بھی الگ الگ ہیں اس لئے مختلف صورتوں کے بارے میں الگ الگ احکام لکھے جاتے ہیں۔
مستقل منعِ حمل
منعِ حمل کی ایسی صورت جو مستقل طور پر قوتِ تولید کو ختم کر دے جس کے لئے ہمارے زمانے میں مردوں کی نسبندی اور عورتوں کا آپریشن کیا جاتا ہے، اصلاً حرام ہے۔ قدیم زمانہ میں اس کے لیے "اختصاء" کی صورت اختیار کی جاتی تھی۔ بعض صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ علہیم نے خود کو خصی کرنا چاہا تاکہ اپنا زیادہ سے زیادہ وقت عبادت کے لئے یکسو کر سکیں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا۔ حضرت سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اگر حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی اجازت دی ہوتی تو ہم لوگ خصی ہو جاتے۔ رد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی عثمان بن مظعون التبتل ولو اذن لا ختصینا (۱)۔ اسی بنا پر فقہاء نے بھی "اختصاء" کو حرام قرار دیا ہے۔ قاضی ابو الحسن ماوردی لکھتے ہیں :
و یمنع من خصاء الاٰدمیین والبھائم و یؤدب علیہ (الاحکام السلطانیہ)
حافظ ابن حجر رحمہ اہہ نے نہ صرف اختصاء، بلکہ ایسی ادویہ کے استعمال کو بھی حرام قرار دیا ہے جو قوتِ تولید کو ختم کر دے اور اس پر اتفاق نقل کیا ہے :
والحجۃ فیہ انھم اتفقوا علیٰ منع الجب والخصاء فیلحق بذلک ما فی معناہ من التداوی بالقطع اصلاً (۲)۔
-------------------------------------------------------------------
(۱) بخاری و مسلم عن سعد بن وقاص رضی اللہ عنہ۔
(۲) فتح الباری ۹/۹۷۔