المطلق علی المقید اجماعاً (۱)۔ وہ خون جو گوشت میں ہوتا ہے، حرام نہیں۔ چنانچہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ ان سے خون لگے ہوئے گوشت کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس خون سے منع فرمایا ہے جو بہتا ہوا ہو۔ "نھیٰ عن الدم المفرح" (۲)۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا ہی سے ایک اور روایت میں ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانہ میں ہم لوگ گوشت پکاتے تھے اور خون کی زردی ان پر نمایاں رہتی تھی اور یہی گوشت ہم لوگ کھاتے تھے (۳)۔
اسی اصل پر امام ابو حنیفہ رحمۃ اللہ کے نزدیک مچھلی سے نکلنے والا خون ناپاک نہیں ہے، یہی حکم مکھی، مچھر وغیرہ کے خون کا ہے کہ یہ سب بہتے ہوئے خون (دمِ مسفوح) میں داخل نہیں (۴)۔
سوّر
تیسرے سور کا ذکر کیا گیا ہے، قرآن کا مِزاج یہ ہے کہ وہ لفظی موشگافیوں کے بجائے استعمال اور زبان و بیان کے معاملہ میں عرف کو ملحوظ رکھتا ہے پس ہر چند کہ خنزیر اپنے پورے وجود کے ساتھ حرام اور ناپاک ہے، لیکن چونکہ سؤر کا اصل مقصود اس کا گوشت ہے اس لئے ازراہِ اتفاق بجائے خنزیر کے "لحمِ خنزیر" سؤر کے گوشت کا ذکر کیا گیا، حالانکہ سؤر کے تمام اجزاء اسی طرح حرام ہیں، یہ ٹھیک ویسے ہی ہے جیسے جمعہ والی آیت میں تجارت سے منع گیا گیا ہے، حالانکہ تجارت ہی پر موقوف نہیں، اذانِ جمعہ کے بعد ہر طرح کا معاشی
-----------------------------------------------------------------
(۱) قرطبی ۲/۲۲۲۔
(۲) احکام القرآن للجصاص ۱/۱۲۳۔
(۳) قرطبی ۲/۲۲۳۔