حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ ایسے شخص کی کوئی حرمت و کرامت نہیں۔ اسی طرح کی بات حسن بصری سے بھی نقل کی گئی ہے، ایک روایت میں ہے کہ جس نے اپنے چہرہ سے چادر حیا اتار دی، اس کی شکایت غیبت نہیں (۱)۔
فقہاء نے بعض اور صورتوں کو بھی جائز قرار دیا ہے یا اس کو غیبت میں شمار نہیں کیا ہے۔ مثلاً اشخاص کی تعیین کے بغیر کسی گاؤں یا شہر کو لوگوں کی خامی بیان کی جائے یا کسی کمزوری کو بطور اظہار افسوس کے ذکر کیا جائے، غصہ اور توہین مقصود نہ ہو تو ان صورتوں میں بھی شکایت غیبت نہیں ہے، لیکن مناسب یہ بھی نہیں۔ اسی طرح حدیث کے راوی یا کسی معاملہ کے گواہ پر جرح جائز بلکہ واجب ہے کہ یہاں اس کی خامیوں کے بیان کرنے کا مقصد شریعت کی حفاظت اور مظلوم کو ظلم سے بچانا ہے (۲)۔
جھوٹ - حرام اور حلال
جھوٹ بدترین گناہ اور اکبر کبائر ہے، قرآن میں دسیوں مواقع پر جھوٹ کی مذمت کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ جھوٹ کو اللہ کی لعنت کا سبب خاص قرار دیا گیا ہے (نور-۱) اللہ تعالیٰ نے جہاں شرک و بُت پرستی سے منع کیا ہے وہیں دوش بدوش دروغ گوئی سے بھی اجتناب کا حکم فرمایا ہے (حج-۴)، لیکن بعض صورتوں میں زیادہ بہتر اور اہم مقاصد کے لئے جھوٹ بولنے کی اجازت دی گئی ہے۔ خود احادیث میں جھوٹ کی بعض صورتوں کا استِثناء موجود ہے۔
-------------------------------------------------------------
(۱) احیاء العلوم ۱۵۲، ۱۵۳/ ۳، بیان الاعذار المرخصۃ فی الغیبۃ، نیز دیکھئے : رد المختار ۵/۲۶۳۔
(۲) در مختار و رد المختار ۵/۲۶۲، عالمگیری ۵/۳۶۲۔