ذبیحہ کے معاملہ میں اہل کتاب کا نہیں بلکہ عام کافروں کا ہے اور یہ نہ صرف فقہاء کی تصریحات کے مطابق ہے بلکہ شریعت کی اس روح کے بھی موافق ہے کہ ایسے تمام مسائل میں ایمان کا تحفظ سب سے زیادہ اہمیت رکھتا ہے اس لئے جہاں اہل کتاب سے فتنہ کا اندیشہ ہو وہاں فقہاء نے کتابیہ سے بھی نکاح کی اجازت نہیں دی ہے۔"
تعداد ازدواج
اسلام سے پہلے تعداد ازدواج کی کوئی تحدید نہیں تھی۔ اسلام نے اس کو چار تک محدود کر دیا اور یہ پابندی بھی عائد کر دی کہ اگر عدل و انصاف کرنے پر خود کو قادر نہ پاتا ہو تو ایک ہی بیوی پر اکتفا کرے، ایک سے زیادہ نکاح نہ کرے۔
فان خفتم لا تعدلوا فواحدۃ (۱) اگر انصاف نہ کر سکو تو صرف ایک ہی نکاح کرو۔ اس لئے اگر کوئی شخص اپنے بارے میں اس پر مطمئن نہیں ہو کہ وہ اپنی تمام بیویوں کے ساتھ مساوات برت سکے گا تو اس کے لئے دوسری شادی کرنا جائز نہیں ہے۔ سید قطب شہید نے اس سلسہ میں علماء سلف و خلف کا مسلک نقل کرتے ہوئے لکھا ہے :
"اگر کوئی شخص اپنے آپ کو اس انصاف سے عاجز محسوس کرے اور اسے خوف ہو کہ وہ اس پر قادر نہ ہو سکے گا تو صرف ایک ہی نکاح درست ہے اور اس سے زیادہ نکاح ناجائز ہیں۔" (۲)۔
اور امام احمد بن حنبل کے نزدیک تو اگر ایک عورت نکاح کے وقت یہ شرط لگا دے کہ وہ اس کی موجودگی میں دوسری شادی نہ کرے گا تو شوہر کو اس
---------------------------------------------
(۱) نساء : ۳۔
(۲) فی ظلال القرآن ۱/۸۲۔