۱۱۳
اکتفا کرے، ارشاد نبوی ہے :
اذا دعی احدکم فلیجب فان کان صائماً فلیدع و ان کان مفطر افلیطعم۔ (ابو داؤد عن ابی ہریرہ رضی اللہ عنہ)تم میں سے کسی کو دعوت دی جائے تو قبل کر لے۔ روزہ سے ہو تو دُعا دینے پر اکتفا کرے اور روزہ نہ ہو تو کھا لے۔
جس دعوت میں منکر ہو!
لیکن اگر دعوت کسی منکر اور خلافِ شرع بات پر مشتمل ہو تو حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں شرکت کو ناپسند فرمایا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس دسترخوان پر شراب پی جائے اس پر نہ بیٹھا جائے "نھیٰ عن الجلوس علیٰ مائدۃ یشرب الخمر علیہا (۱)۔
فقہاء نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس ہدایت پر نہی عن المنکر کے متعلق اسلام کا خاص اعتناء اور حالات و حیثیات کو ملحوظ رکھتے ہوئے اس پر تفصیل سے روشنی ڈالی ہے کہ کس قسم کی دعوتوں میں شرکت مباح ہے اور کس میں شرکت مکروہ ؟
دعوت کے ساتھ اگر منکرات ہوں تو فقہاء احناف کے نقطہ نظر کا حاصل یہ ہے کہ اگر پہلے سے دعوت میں منکرات کے شامل ہونے کا علم ہو تب تو اس میں شرکت جائز نہیں۔ ایسی دعوت قبول نہ کرنی چاہیے۔ ولو علم قبل الحضور لا یقبلہ (۲)۔ گو بعض فقہاء نے اس کو جائز قرار دیا ہے اور اس کو نماز جنازہ کے ساتھ نوحہ پر قیاس کیا ہے (۳)، مگر یہ قیاس درست نہیں معلوم ہوتا کہ نماز جنازہ فرض ہے اور قبولِ
------------------------------------------------------------------
(۱) جمع الفوائد ۱/۲۹۳۔
(۲) البحر الرائق ۸/۱۸۸۔
(۳) فتح القدیر ۸/۴۴۔