یا کاروبار کے ضائع یا ہلاک ہونے کی وجہ سے جو نفع متوقع ہے اس کا حاصل ہونا اور نہ ہونا موقع خطر میں ہے کہ اگر یہ چیزیں سلامت رہ گئیں تو یہ نفع حاصل نہ ہو سکے گا۔ اور چوں کہ کم رقم دے کر زیادہ رقم حاصل کی جا رہی ہے، اس لئے سود بھی ہے۔
ہندوستانی مسلمانوں کے لئے :
لیکن ہندوستان کے موجودہ حالات میں ہندو مسلم فسادات کی کثرت اور ان فسادات کا اتفاقاً پیش نہ آنا بلکہ بعض جماعتوں اور تحریکوں کی طرف سے مسلمانوں کی جان و املاک کی ہلاکت و بربادی کی سعی نے یہ سوال پیدا کر دیا ہے کہ بہ حالتِ موجودہ ہندوستانی مسلمانوں کے لئے کیا انشورنس کی اجازت دی جا سکتی ہے؟ اور اس کو جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟
اس سلسلہ میں علماء کی ایک جماعت جواز کا فیصلہ کر چکی ہے، حقیقت یہ ہے کہ موجودہ حالات میں مسلمانوں کے لئے جماعتی اعتبار سے جان و مال اور کاروبار کا انشورنس فقہی اصطلاح کے اعتبار سے "حاجت" کا درجہ ضرور اختیار کر گیا ہے اور عمومی اور اجتماعی نوع کی حاجتیں ضرورت ہی کا درجہ رکھتی ہیں (۱)، بلکہ فقہاء نے تو انفرادی حاجت کی بنا پر بھی سودی قرض لینے کی اجازت دی ہے "ویجوز للمحتاج الاسقتراض باربح" ۰۲) اور دفع ضرر ہی نہیں بلکہ کسی چیز کے تعامل اور رواج کو بھی حاجت کی کیفیت پیدا ہونے کے لئے کافی تصور کیا گیا ہےہ "و منھا الافتاء بصحۃ بیع الوفاء حین کثرالدین علیٰ اھل بخاریٰ و ھٰکذا بمصر و قد سمو لا بیع الامانۃ" (۳)۔ اسی طرح جن چیزوں میں کاریگروں سے غیر موجود
-----------------------------------------------------
(۱) الاشباہ والنظائرِ للسیوطی ص:۱۷۹۔
(۲) الاشباہ والنظائر لابن نجیم مع الخم۔ ۱/۲۹۴۔
(۳) حوالہ سابق۔