میں ابن عباس، عبد اللہ بن عمر مجاہد، حسن بصری وغیرہ سے اس کا جواز نقل کیا گیا ہے (۱)۔ اسی ضرورت کے ذیل میں علاج اور میڈیکل جانچ کی غرج سے مادٔہ منویہ کا نکالنا بھی ہے، تاہم ان سب کا تعلق اتفاق سے ہے۔ عادتاً تو کسی بھی طرح اجازت نہ دی جائے گی، کہ یہ نہ صرف اخلاق کو متأثر کرتا ہے اور فطرت سے بغاوت کے مترادف ہے بلکہ صحتِ انسانی کے لئے بھی سخت مضر ہے۔
عورتوں میں ہم جِنسی
جس طرح مردوں کے درمیان فعلِ خلافتِ فطرت حرام ہے، اسی طرح عورتوں کے درمیان بھی فعلِ خلافِ فطرت جس کو "سحق" کہا جاتا ہے، ناجائز ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ایک عورت دوسری عورت کے ساتھ ایک کپڑے میں نہ رہے (۲)۔ حضرت واصلہ سے مروی ہے کہ عورتوں کے درمیان باھم لذت اندوزی زنا ہے (۳)۔ ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے علاماتِ قیامت میں سے قرار دیا ہے کہ مرد مرد سے، عورت عورت سے اپنی ضرورت پوری کرے (۴)۔
قدرت نے مرد و عورت کو ایک دوسرے کی ضرورت اور تکمیلِ ضرورت کا سامان بنا کر پیدا کیا ہے اور اس کا مقصد بھی مجرد شہوت اور ہوس کی تکمیل نہیں، نسلِ انسانی کی افزائش اور اس کے بقاء میں تسلسل ہے۔ ہن جنسی فطرت کے ان مقاصد میں مخل ہے اور قطعی غیر فطری ہے۔
----------------------------------------------------------------
(۱) دیکھئے اعلاء السنن ۱۱/۲۷۷، باب مادر و فی استمناء الید بکفہ۔
(۲) المحلی ۱۱/۳۹۱۔
(۳) مجمع الزوائد ۶/۲۵۶ بحوالۂ طبرانی و ابو یعلٰی باب زنا الجوارح۔
(۴) مجمع الزوائد بسند ضعیف ۸/۳۲۲۔