ذبیحہ میں حیات کی شرط
جس جانور کوذبخ کیاجارہاہواس کے لئے ضروری ہے کہ موت کے وقت اس میں حیات موجود ہو۔ مختلف فقہاء نے اپنے اپنے تجربات کی بنا پرموت وحیات کی علامتیں مقررکی ہیں، حرکت کرنا، خون کانکلنا (1) شدید حرکت اور شدت کے ساتھ خون کا بہاؤ (2) وغیرہ ۔ علامہ حصکفی نے ان علامات کازیادہ احاطہ کیاہے مثلا منھ کابند ہونا زندگی کی علامت ہے، آنکھ کابالکل کھلاہواہونا موت کی علامت ہے، پاؤں کاسمیٹنا زندگی کی علامت ہے، بال کاکھڑا ہونا زندگی اور گرجانا موت کی پہچان ہے (3) لیکن مختلف فقہاء کی عبارتوں سے جوبات منقح ہوتی ہے وہ یہی ہے کہ حیات دوقسم کی ہے ایک حیات مستقرہ جوکسی زندہ حیوان میں ہوتی ہے اور ایک وہ خاص حیات جو دماغ اور قلب کی موت کے بعد جدید تحقیق کے مطابق اعضاء میں باقی رہتی ہے اور اس کی وجہ سے مضطرہانہ حرکت کاصدور ہوتاہے جس کو عرف میں "حرکت مذبوحی" کہاجاتاہے توجانور اس وقت حلال ہوگا جب کہ اس میں حیات مستقرہ کی رمق باقی رہ گئی ہو اور ذبح کردیا جاۓ اور اس حیات کا اندازہ علامات، تجربات، قرائن اور جدید دور میں طبی اور سائنسی آلات کے ذریعہ لگایاجاتاہے، اسی لۓ فقہاء نے مسئلہ کی بنیاد کسی خاص علامت پرنہیں رکھی بلکہ ذبیحہ کی موت وحیات کے بارے میں علم و واقفیت پررکھی ہے ذبح شاۃ مریضۃ فتحرکت اورخرج الدم
_________________________________________
(1) بدائع 52/5 (2) شرح مہذب 89/9
(3) درمختار علی الرد 196/5