۵۸
یہ اختلاف صواب و خطا کا اختلاف ہے، ہدایت و ضلالت کا اختلاف نہیں۔
لیکن کسی شخص کا حدیث کی حجیت ہی سے انکار کر دینا، دین میں اس کو مستند یا قابل عمل نہیں ماننا یا استہزاء اور انکار کرنا --- جیسا کہ ہمارے زمانہ کے بعض خدا ناترس اور اباحیت پسند نام نہاد مسلمان دانشوروں اور بزعم خود ترقی پسندوں نے کیا ہے۔ ----- شدید گمراہی اور دین میں تحریف و تصحیف کے مترادف ہے۔ حدیث بحثیتِ حدیث واجب التعمیل بھی ہے اور واجب التعظیم بھی، راقم الحروف کا خیال ہے کہ ایسا کرنے میں یا تو کفر ہے یا کم از کم اندیشہ کفر۔
ملا علی قاری رحمہ اللہ نے خلاصۃ الفتاویٰ سے نقل کیا ہے :
من رد حدیثاً قال بعض مشائخنا یکفر و قال المتاخرون ان کان متواترا کفر –۔ اقول ھذا ھو الصَّحیح الا اذا کان رد حدیث الاحاد من الاخبار علیٰ وجہ الاستخفاف و الاستحقار و الانکار (۱)۔
جو کسی حدیث کو رد کر دے ہمارے مشائخ نے کہا کہ اسکی تکفیر کر جائے گی، متاخرین نے کہا ہے کہ اگر حدیثِ متواتر کو رد کر دے تب تکفیر کی جائے گی، میں کہتا ہوں یہی صحیح ہے سوائے اس کے کہ خبر واحد کو بطور استہزاء اور تحقیر و انکار کے رد کر دے (تو اس کو کافر قرار دیا جائے گا۔)
اس لیے مسلمانوں کو اس فتنہ کبریٰ سے آگاہ رہنا چاہیےکہ انکار حدیث دراصل دین کی اساس اور بنیاد پر حملہ اور اسلام کی جڑیں کھودنے کے مترادف ہے۔
------------------------------------------------------------------
(۱) شرح فقہ اکبر، ص : ۲۴۷۔