یا علی لا تدخل علیٰ اھلک حتی تقدم لھم شیئاً (۱)۔اے علی! اپنی بیوی سے ملنے سے پہلے ان کو کچھ دے دو۔
یہ تصور کہ مہر علاحدگی کے موقع ہی پر ادا ہو یا شوہر کی موت کے بعد ہی اس کے ترکہ میں سے ادا کیا جائے، نہایت غیر اسلامی اور جاہلانہ تصور ہے۔ مہر بھی دوسرے واجبات اور دیون کی طرح ایک دین ہے جس سے جلد از جلد سبکبار ہو جانا چاہیے۔
افسوس کہ ہمارے معاشرہ میں بہت سے نوجوان مہر کی تعیین کو محض ایک رسمی عمل سمجھتے ہیں اور اس کی ادائیگی کی نیت تک نہیں رکھتے۔ یہ سخت گناہ ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ جس نے مہر مقرر کیا اور اس کی ادائیگی کا ارادہ نہیں ہے تو وہ زانی ہے۔ بعض روایات میں ہے کہ قیامت کے دن وہ خدا کے حضور ایک زنا کار کی حیثیت سے پیش ہو گا (۲)۔ قرآن مجید کہتا ہے کہ اگر مہر دے بھی چکا ہے اور نوبت علیحدگی کی آئے تو ہرگز عورت سے اس کو واپس لینے کے حیلہ بہانے نہ کرے (نساء : ۲۰، ۲۱)۔ کاش یہ تنبیہات اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ہدایات ایسے خدا سے بے خوف لوگوں کے اندر آتشِ احساس کو سلگانے اور شعور کو جگانے میں ممدّ و معاون ثابت ہوں۔ و باللہ التوفیق و یھدی السَّبیل۔
رسمِ جہیز
جہیز کی جو بدبختانہ رسم اس وقت ہمارے معاشرہ میں نکاح کا جزو لازم بن چکی ہے وہ خالصتًہ نامنصفانہ بھی ہے اور غیر اسلامی بھی، شریعت نے نکاح کے باب میں اخرابات کی تمام تر ذمہ داری مردوں پر رکھی ہے اور اسی کو ازدواجی
----------------------------------------------------------------
(۱) مجمع الزوائد ۴/۲۸۳۔
(۲) مجمع الزوائد ۴/۲۸۴، باب فیمن نوی ان لا یؤدی صداق امراتہ۔