اس طرح كا احتمال موجود هے ليكن غير منقوله اشياء ميں اس كا كوئي احتمال نهيں كه وه چيز ضائع ہوجائے یا گم ہوجائے یا چرالی جائے اس لئے صرف منقولہ اشیاء ہی میں فروخت کرنے کے لئے اولاًقبضہ ضروری ہوگا (1)
کمیشن ایجنٹ:
ہمارے زمانے میں خرید و فروخت کی بہت سی ایسی صورتیں مروج ہیں جو ایجنٹ کے ذریعہ ہوتی ہے،کمپنی اور کارخانہ کا ایجنٹ معاملہ طے کرتا ہے اور خود اس پر کمیشن وصول کرتا ہے -------سوال یہ ہے کہ ایجنٹ کا اس طرح کمیشن لینا درست ہوگا ؟شرعاًیہ اجرت جائز ہوگی یا نہیں ؟
امام بخاری نے اس سلسلہ میں ایک مستقل عنوان قائم کیا ہے اور نقل کیا ہے کہ ابن سیرین ،عطاء،ابراہیم نخعی اور حسن بصری جیسے بلند پایاعلماء ایجنٹ کے کمیشن کو جائز قرار دیتے تھے ۔ابن عباس سے منقول ہے کہ کوئی شخص کسی کو کپڑا دے اور کہے کہ اس کپڑے کو فروخت کرلو ،اتنے روپے سے زیادہ جو قیمت حاصل کروگے وہ تمہاری ہوگی تو اس میں مضائقہ نہیں ۔غالباًخود امام بخاری کا رجحان اس کے جائز ہونے کی طرف ہے ،اس لئے کہ آگے خود انہوں نے حضورؑ کی اس حدیث سے استدلال کیا ہے کہ "المؤمنون عند شروطھم "ہر مسلمان کو اپنی شرطوں اور معاہدات پر قائم رہنا چاہئے یعنی ایجنٹ اور مالک کے درمیان جو باتیں طے ہوئی ہوں ،فریقین کو (2)ان پر قائم رہنا چاہئے ائمہ اربعہ کے بعد درمیان اس سلسلہ میں اختلاف ہے،امام مالک کے نزدیک سامان کے فروخت کرنے پر اجرت متعین کرنا جائز ہے بشرطیکہ فروخت کی کوئی مدت
------------------------------------------------------
(1)دیکھئے فتح القدیر 138/6
(2)دیکھئے بخاری کتاب الاجارۃ باب اجرالسمرۃ