رہ گئے وہ حقوق جن کی منتقلی ممکن ہے ’’ مال‘‘ کے حکم میں ہیں اور ان کی خرید و فروخت درست ہے۔
اس تفصیل کے مطابق حقوق و منافع کی فروخت کی جو صورتیں فی زمانہ رائج ہوگئ ہیں وہ یہ ہیں: خلو یعنی حق اجارہ کی فروخت جس کو ’’پگڑی‘‘ سے تعبیر کیا جاتا ہے، حق ایجاد، حق تالیف، رجسٹرڈ ٹریڈ مارک اور ناموں کی فروخت نیز فضا کی فروخت اور یہ سبھی جائز ہیں(۱)
سود:
معیشت کے باب میں شریعت اسلامی نے جس چیز کو سب سے زیادہ ناپسند کیا ہے اور اس پر نفریں بھی بھیجی ہے وہ سود ہے ۔ قرآن مجید نے کھلے لفظوں میں سود خوری کی ممانعت فرمائی يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا (آل عمران ۱۳۰) قرآن میں ایک موقعہ پر سود خواروں کا نقشہ کھینچا گیا ہے کہ وہ قیامت کے دن اس کیف و حال کے ساتھ قبر سے اٹھیں گے کہ گویا آسیب نے ان کو ہوش و حواس سے محروم کر دیا ہے ۔(بقرۃ: ۲۷۵) اور کیوں نہ ہو کہ سود خواری ہے ہی ایسی لعنت جس کو حرص و ہوس ، دنیا طلبی اور بیش از بیش حصولِ دنیا کا جنون بے قابو کر کے رکھ دیتا ہے اور غریبوں اور کمزوروں کے پسینہ اور خون سے اس کو قند و نبات کی لذت کا احساس ہونے لگتا ہے، اس لئے قیامت میں ہوش و حواس سے اس کی یہ محرومی اس کے جرم کے عین مطابق حال سزا ہے، ولا يظلم ربك احدا.
پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے سخت غیظ و غضب اور تنبیہ و توبیخ کے لہجہ میں سود کی ممانعت فرمائی ہے۔ ارشاد ہوا کہ سود کے بہتر(۷۲) درجہ گناہ ہیں
-----------------------------------------------------
(۱) تفصیل کیلئے ملاحظہ ہو ’’جدید فقہی مسائل حصہ دوم‘‘
مقالہ : حقوق کی خرید و فروخت ، طبع دوم۔