آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت فرمائی ہے۔ اکثر اکابر صحابہ کا ذریعہ معاش بھی یہی تجارت تھی۔ حضرت ابو بکر رضی اللہ عنہ جب تک خلیفہ نہیں ہوئے، تجارت ہی کو اپنا ذریعہ معاش رکھا (۱)۔ سورۂ جمعہ کے مضمون سے معلوم ہوتا ہے کہ تجارت اور اس میں ملک و بیرون ملک کاروبار صحابہ رضوان اللہ تعالیٰ کا عام معمول تھا۔ ایک بار آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ سب سے بہتر ذریعۂ معاش کیا ہے؟ ارشاد ہوا صحیح طریقہ پر تجارت اور اپنے ہاتھ کی محنت "عمل الرجل بیدہ و کل بیع مبرور" (۲)۔ اسلام سے پہلے تو لوگ تاجر کو "سمسار" یعنی دلال کہا کرتے تھے جو ایک قبیح تخاطب تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے بجائے "تجار" کے لئے بہتر نام "تاجر" کا عطا فرمایا (۳)۔
جہاں ایک طرف آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تجارت کی اس درجہ فضیلت بیان فرمائی اور تاجروں کی حوصلہ افزائی کی وہیں دوسری طرف چوں کہ اس پیشہ میں جھوٹ دھوکہ دہی وغیرہ کے مواقع زیادہ ہوتے ہیں، اس لئے تنبیہ بھی فرمائی اور فرمایا کہ جو تجار بے خوف جھوٹے اور بد مُعاملہ ہوں وہ قیامت میں فاجروں کی صورت میں اٹھائے جائیں گے (۴)۔
سامانِ فروخت کی خامیاں چُھپائی نہ جائیں
ہر چند کہ شریعت اسلامی میں تجارت اور خرید و فروخت کے احکام بڑی تفصیل سے ذکر کئے گئے ہیں اور ان کی تفصیلات پر اصول و کلیات سے لے کر
-------------------------------------------------------------
(۱) بخاری کتاب البیوع باب کسب الرجل و عملہ بیدہ۔
(۲) مجمع الزوائد عن رافع بن خدیج ۴/۶۰۔
(۳) نسائی کتاب الایمان باب فی الحلف والکذب الخ۔
(۴) ترمذی کتاب البیوع باب ماجاء فی التجار الخ۔