لطیفہ گوئی اور طنزیات میں زبان کو ذریعہ بناجائے یا قلم کو ان ہی اصولوں کو پیش نظر رکھنا چاہئے ، اور ہاں ایسا مزاح جو تعمیری مقصد کے لئے نہ ہو بلکہ وقتی تفریح کے لئے ہو ، اس کو مستقل مشغلہ بھی نہ بناناچاہئے ، نیز لطیفہ گوئی کو ذریعہ معاش بنانا اور اس کی اجرت وصول کرنا فقہاء کی نگاہ میں مکروہ اور ارشاد خداوندی من یشتری لھو الحدیث (لقمان :6 ) کا مصداق ہے (1)
ترنم وموسیقی
گانا اوربجانا بھی ان امور میں سے ہے جو انسانی طبیعت پر گہرا اثر ڈالتا ہے اور اس کو متاثر کرتا ہے ۔ اس میں شریعت کے عام اصول وہی ہیں جو اشعار کے سلسلہ میں ہیں یعنی اگر اشعار غلط جذبات کو ہو دینے والے ہوں اور ہیجان انگیز ہوں ۔ ان کا سننا اور سنانا تو بہرحال کراہت سے خالی نہ ہو گا ، اسی طرح اگر عورتیں غیر محرم اور اجنبی مردوں کے درمیان آکر گائیں تو یہ بھی ناجائز ہی ہو گا کہ شریعت نے اس باب میں جو احتیاط برتی ہے یہ اس کے خلاف ہے ، اسی طرح اگر گانے کے ساتھ مزامیر اور دوسرے آلات ہوں تو اس طرح گا نابجان بھی جائز نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے اس سے منع فرمایا ہے عبد اللہ بن مسعود سے مروی ہے کہ تم گانا اور موسیقی کے سننے بچو ایکم واستماع المعازف والغناء (2) حضرت علی کی ایک روایت میں امت کے طبقہ پر عذاب کا اندیشہ ظاہر کیا گیا ہے جو شراب پیتے ہوں ،ریشم پہنتے ہوں اور دف بجاتے ہوں (3) البتہ اگر ان مفاسد سے بچ کر ترنم سے اشعار پڑھے اور سنے جائیں تو مضائقہ نہیں علامہ شامی نے نقل کیا ہے کہ گانے (غناء ) کا اطلاق اس وقت ہو گا جب کہ
-------------------
(1) درمختار وردالمحتار272/5
(2) کنز العمال عن ابن مسعود160/19
(3) کنزالعمال 162/19