بے شک جاہلیت قدیمہ کی صدائے باز گشت ہے اور ’’ لا تقتلوا اولادکم خشیۃ املاق ‘‘ کے مصداق ناجائز ہے کیوں کہ آیت کریمہ میں صرف ’’ قتل اولاد ‘‘ ہی کی ممانعت نہیں ہے بلکہ ’’خشیۃ املاق ‘‘ کے تصور کو بھی مذموم قرار دیا گیا ہے ۔
فطری طریقہ :
عارضی منعِ حمل کی صورت یہ کہ اس کے لئے کسی فعل کا ارتکاب نہیں کیا جائے بلکہ ان مخصوص ایام میں مجامعت سے باز رہا جائے جن میں طبی تحقیق کے مطابق استقرار کا زیادہ امکان ہو ، فی نفسہ جائز ہے لیکن اگر اسی نیت ہو جس کو شریعت کا مزاج قبول نہ کرتا ہو تو مکروہ ہوگا ۔
ضبط تولید میں تعاون
’’ منع حمل ‘‘ کی جو صورتیں جائز نہیں ، مسلمان ڈاکٹروں کے لئے ان میں تعاون کرنا درست نہیں ہوگا ، اس لئے کہ معصیت میں تعاون کی ممانعت فقہاء کے نزدیک مسلمہ ہے ۔ خلاصۃ الفتاوی میں ہے ’’ ولو اٰجر نفسہ من ذمی لیعصر لہ فیتخذ خمرا یکرہ ‘‘ (۱) اور اس معاملہ میں مسلمان اور کافر کے درمیان تفریق صحیح نظر نہیں آتی ، اس لئے کہ معصیت میں تعاون خود کافروں کے ساتھ درست نہیں گو ان کے دین میں اس کی اجازت ہو ۔ فقہاء نے لکھا ہے : رجل لہ اب ذمی او امرأۃ ذمیۃ لیس لہ ان یقودہ الی البیعۃ ولہ ان یقودہ من البیعۃ الی منزلہ لان الذہاب الی البیعۃ معصیۃ والی المنزل لا (۲)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(۱) خلاصۃ الفتاوی ۴؍۲۴۶
(۲) حوالہ مذکورہ ۴؍۲۴۷