۳۰
حکمِ خداوندی کے مطابق فیصلہ نہ ہو تو کہیں اس کو کفر (مائدہ:۴۴)، کہیں فسق (مائدہ:۴۷) اور کہیں ظلم (مائدہ:۴۵) قرار دیا گیا اور حکم و فیصلہ اور حلال و حرام کرنے میں کسی اور کے شریک و سہیم بنانے کو شرک کے لفظ سے تعبیر کیا گیا (کہف:۲۶)۔ یہودیوں اور عیسائیوں نے اپنے علماء اور فقہاء کے اقوال کو حکمِ خداوندی کا درجہ دے رکھا تھا۔ اور حرام و حلال کی کلید ان کے حوالے کر دی تھی، قرآن نے اسے احبار و رہبان کو رب قرار دینے کے مرادف قرار دیا۔ اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ (توبہ :۳۱)۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بعض چیزیں اپنے اوپر عملی طور پر ممنوع کر لی تھیں تو اللہ تعالیٰ نے اس پر ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا، اور ارشاد ہوا " لِمَ تُحَرِّمُ مَا أَحَلَّ اللَّـهُ لَكَ ۖ (سورہ تحریم : ۱)۔
اس لئے جس طرح کسی حرام کو حلال اور جائز کو ناجائز قرار دینا بد دینی اور گمراہی ہے، اسی طرح کسی حلال کو بطور خود حرام کر لینا بدعت اور اللہ تعالیٰ کے حقوق اور اختیارات میں دست اندازی ہے اور گناہ و معصیت ہونے میں اصولی اعتبار سے دونوں ہی ہم درجہ ہیں۔
حرام ---- فقہاء کی اصطلاح میں
حرام کے معنی روکنے کے ہیں "حریم" اس احاطہ کو کہتے ہیں جو کنویں میں کسی چیز کو گرنے سے روکے۔ ---------فقہ کی اصطلاح میں ان باتوں کو کہتے ہیں جن کے ارتکاب سے منع کر دیا گیا ہو، اس مفہوم کی ادائیگی کے لئے مختلف اہل علم نے جو تعبیریں اختیار کی ہیں ان میں معمولی سا تفاوت پایا جاتا ہے۔ اس سلسلہ میں سب سے چُست اور جامع تعبیر غالباً وہ ہے جو