اس طرح کی مثالیں کثرت سے موجود ہیں -----------اس لئے جیسا کہ اوپر مذکور ہوا ، رہن سہن ، دین ، حالت ، دیانت اور اخلاق یہی چیزیں ہیں جو رشتہ کے انتخاب کے وقت ملحوظ رکھے جانے کے لائق ہیں ، یوں انسانی طبیعتوں کے فرق کو سامنے رکھتے ہوئے خاندان ، ذریعہ معاش ، معاشی سطح اور اسلام میں قدامت وجدت وغیرہ کو بھی ملحوظ رکھنے کی اجازت دی گئی ہے (1)
خطبہ نکاح
اسلام سے پہلے بھی زمانہ جاہلیت میں نکاح سے پہلے خطبے دیئے جاتےتھے لیکن وہ خطبے فخر وتعلی اور نسبی تفاخر اوراپنے آباء واجداد کی مبالغہ آمیز مدح سرائی کا مجموعہ ہوتا تھا ، اسلام جس کے نزدیک سوائے دین کے کوئی چیز وجہ تفاخر نہیں اور جو انسان سے زندگی کے ہر عمل میں تواضع وفروتنی اور عجز وانکسار کا طالب اور خدا کی حمد وثناء اور اس سے دعاوالتجا کا معلم ہے ، اس نے خطبہ نکاح کو تو باقی رکھا لیکن اسکی کیفیت اور مضامین یکسر بدل کر رکھ دیئے اور اس کی جگہ ایسا خطبہ مقرر کیا جس میں خدا کی حمد وثناء ہو ، توحید ورسالت کا اعتراف واقرار ہو ، قرآن کی وہ آیات ہوں جن کا مقصد زندگی کے معاملات سے متعلق تنبیہ اور رہبری ہے ، چنانچہ حضرت عبد اللہ بن مسعود اورحضرت ابو موسی اشعری سے اس موقعہ کے لئے جو خطبہ منقول ہے وہ یہ ہے :
الحمد للہ نحمدہ ونستعینہ ونعوذ باللہ من شرور انفسنا تمام تعریف اللہ ہی کے لئے ہے ، ہم اسی کی حمد بیان کرتے ہیں اور اسی سے مدد چاہتے ہیں اور ہم اپنے
--------------------------------
(1) مسئلہ کفاءت کی شرعی حیثیت پر تفصیلی مطالعہ کیلئے ملاحظہ ہو راقم سطور کی تحریر ؛ مسئلہ کفاءت پر ایک نظر ؛ جو جدید فقہی مسائل حصہ دوم کے تازہ ایڈیشن میں شریک اشاعت ہے