آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خود نکاح کی پیش کش کی تھی، صحابہ کا عمل بالعموم اسی پر تھا، گو ایک آدھ مژال اس کے خلاف بھی ملتی ہے، اس لئے کہ لڑکی کی طرف سے نکاح کی پیشکش بہ ظاہر حیا کے خلاف محسوس ہوتی ہے اور مردوں کی طرف سے بیوی کی تلاش اس کی قوامیت اور ازدواجی زندگی میں اس کی ایک گونہ برتری کے عین مطابق ہے۔
انتخابِ رشتہ کا معیار
مرد و عورت اور اولیاءِ رشتہ کے انتخاب و ترجیح میں کس معیار کو ملحوظ رکھیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کو بھی واضح فرما دیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ جب ایسے رشتے آ جائیں جن کی دینی و اخلاقی حالت سے تم مطمئن ہو (من ترضون دینہ و غلقہ) تو قبول کر لو کہ ایسا نہ کرو گے تو فتنۂ و فساد پیدا ہو گا (۱)۔ ایک اور روایت میں ہے کہ عورتوں سے چار وجوہ کی بنا پر نکاح کیا جاتا ہے، ۱-مال، ۲- حسب و خاندان، ۳- جمال اور ۴- دین۔ ان میں دیندار سے شادی کر کے ازدواجی زندگی کی کامیابی حاصل کرو (۲)۔
پس گو نکاح میں خوبصورتی اور طبیعت کے مطابق کسی اور مرغوب وصف کو بھی معیار بنایا جا سکتا ہے جس کی طرف قرآن نے "ما طاب لکم من النساء" (جو عورت تجھے پسند ہو) کے لفظ سے اشارہ کیا ہے لیکن بہتر طریقہ یہ ہے کہ لڑکی اور لڑکے کی دینداری اور اخلاق ہی کو معیار بنایا جائے، علامہ کاسانی کا بیان ہے : و عند نا الافضل اعتبار الدین و الاقتصار علیہ (۳)۔ ہمارے نزدیک دین کا اعتبار اور صرف اسی پر اکتفأ کرنا افضل ہے۔
-----------------------------------------
(۱) ترمذی، کتاب النکاح ۱/۲۰۷۔
(۲) ترمذی عن ابی ہریرۃ ۱/۲۰۷، باب ماجاء فی من ترضون دینیہ۔
(۳) بدائع الصنائع ۳/۳۱۷۔