وجہ سے ہوئی ہو، اس کو بھی کھانا جائز نہیں، اس لئے کہ ان تمام صورتوں میں ذبح کا جو شرعی طریقہ ہے اور جن رگوں کا کاٹا جانا مطلوب ہے کہ ان کے ذریعہ جسم کا خون بہہ جائے، اس کی تکمیل نہیں ہو پائی ہے۔
آگے اللہ تعالٰی نے وضاحت فرمائی ہے "الا ما ذکیتم" کہ جانور کی ان تمام صورتوں میں اگر موت سے پہلے جانور گرفت میں آ جائے اور اسے شرعی طور پر ذبح کر لیا جائے تو اب اس کا کھانا حلال ہو جائے گا (یہ رائے احناف، شوافع اور حنابلہ کی ہے، مالکیہ کے مسلک میں قدرے تفصیل ہے، مالکیہ کے مسلک کی تفصیل کے لئے دیکھئے حاشیہ دوسوقی و شرح کبیر ۲/۱۱۳)۔
اسی طرح جانور کا کوئی حصہ جو اس کے زندہ وجود سے کاٹ لیا جائے بالاتفاق مردار کے حکم میں ہے۔ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا "مَا قطع من البھیمۃ و ھی حیۃ فھی میتۃ (ترمذی)" اس حکم سے بڑا مقصد جانوروں کے ساتھ رحم دلی اور اس کی بے جا اذیت سے حفاظت ہے۔ اسلام سے پہلے لوگ زندہ جانوروں سے گوشت کاٹ لیتے تھے اور کھاتے تھے۔ اس میں جانوروں کے لئے جس درجہ کی ایذاء تھی وہ محتاجِ اظہار نہیں۔
خون
مردار کے ساتھ اللہ تعالٰی نے خون (دم) کا ذکر فرمایا ہے (بقرہ ۲، مائدہ ۵) میں مطلقاً خون کو حرام قرار دیا گیا ہے اور سورۂ انعام میں بہتے ہوئے خون کو، اس لئے علماء کا اتفاق ہے کہ خون حرام اور نجس ہے، البتہ سورۂ انعام کی روشنی میں اس بات پر بھی اتفاق ہے کہ جس خون کو شریعت نے حرام قرار دیا ہے وہ وہ خون ہے جو بہتا ہوا ہو۔ حمل العلماء ھٰمنا