انسان اللہ کے دوسرے احسانات اور انعامات کے علاوہ خود جمالیاتی نقطۂ نظر سے اپنے سراپا پر غور کرے اور تناسب و موزونیت پر نگاہ ڈالے تو اس احسن الخالقین کا شکر ادا کئے بغیر نہ رہے۔ فتبارک اللہ احسن الخالقین۔
اور علاوہ اس حسنِ خدا داد کے خدا نے اپنی اس مخلوق میں زیبائش و آرائش کا جو سلیقہ اور ذوق عطا فرمایا ہے اس میں بھی اس کا کوئی شریک و سہیم نہیں۔ دنیا میں جتنی مخلوقات ہیں وہ ذوق سے عاری ہیں، نہ مور نے آج تک گیسو سنوارے ہیں، نہ ہرنوں نے پیچ در پیچ سینگوں پر رنگ آرائی کی ہے۔ نہ خوبصورت پرندوں نے کبھی اپنے جمال و کشش کا اندازہ لگایا ہے، لیکن انسان ہے کہ اس نے سَر کے بال سے پاؤں کے ناخن تک حسن آرائی کے ایک سے ایک طریقے دریافت کئے ہیں اور ان کو وجود بخشا ہے، اسلام نے اس مذاق فطرت پر یکسر روک تو نہیں لگائی لیکن اپنے مزاج خاص کے مطابق اس کی تہذیب کی اور اس کے لئے مناسب حدیں قائم کر دیں۔
خواتین کے لیے زیورات
خود حدیثوں سے عورتوں کے لئے زیورات کا استعمال ثابت ہے۔ حضرت ابن عباس کی ایک روایت میں ہاتھ اور پاؤں میں انگوٹھیوں کے پہننے کا ذکر ہے (۱)۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کے ہار کا واقعہ مشہور ہی ہے، کان کے زیور (قرط) کا ذکر بھی حدیث میں ہے (۲)۔ حضرت اُم سلمہ رضی اللہ عنہا کا ہاتھوں میں کنگن کا استعمال کرنا منقول ہے (۳)۔ ایک صحابیہ کا پازیب (خلخال) پہننا روایت میں نقل کیا گیا ہے۔
----------------------------------------------------------------
(۱) بخاری کتاب اللباس باب الخام للنساء۔
(۲) بخاری کتاب اللباس باب القرط للنساء۔
(۳) ابو داؤد باب الکنز ماہو و زکوٰۃ الحل ۱/۲۱۸۔