دسواں باب
کسب ِ معَاش
انسان گو اس دنیا میں اللہ کی بندگی کیلئے پیدا کیا گیا ہے اور یہی اس کا اصل مقصُود ہے لیکن ربّ، کائنات نے اس کو ادراک و احساس اور شعور و جذبات کی زبردست قوتوں سے بھی سَرفراز فرمایا ہے اورنوع بہ نوع ضرورتیں اور تقاضے بھی اس کے جسم کے سَاتھ لگا دیئے ہیں، آنکھوں کو خوش کن مناظر کی تلاش ہے، شامّہ عطر بیز اور روح افزابُو کا طالِب ہے، زبان چاہتی ہے کہ اپنے نطق و گویائی کے جوہر ظاہر کرے اور اس کے لئے بہتر سے بہتر وَسائل اختیار کرے، پیٹ اور بھوک کے تقاضے ان سب سے سِوا ہیں کہ کیا پانی اور کیا خشکی بلکہ فضا ہر جگہ اس نے اپنی آسُودگی کا سامان دریافت کیا ہوا ہے۔ ایک اہم داعیہ فطرت صنفی و نفسانی جذبات کا بھی ہے جس پر نسلِ انسانی کی افزائِش اور اس کی بقا موقوف ہے اس کے علاوہ قلب و نظر اور عقل و خرد کے دسیوں تقاضے ہیں جو اس کی زندگی کے سَاتھ لگے ہوئے ہیں، ان سے منھ موڑنا اور ان کے گلے گھونٹنا بظاہر اس کے لئے ممکن نہیں۔
دنیاکے بعض مذاہب نے انسان کو اسی انہونی پر مجبور کیا۔ لیکن چوں کہ یہ ایک