ذلك انه اذا بدا الصلاح في الثمرة جاز بيعها مطلقا و بشرط القطع و بذلك قال مالك و الشافعي و قال ابو حنيفة و اصحابه لا يجوز بشرط التبقية(1)
امام ابو حنیفہ ؒ و ابو یوسف ؒ کے نزدیک پھل کے درخت پر ایک عرصہ لگے رہنے کی شرط لگا دی جائے تو بیع درست نہ ہوگی، امام محمد ؒ نے اس کی تفصیل کی ہے کہ اگر پھل تیار ہو چکےہوں تو ایسی شرط لگانے میں مضائقہ نہیں اور یہ شرط معتبر بھی ہو گی اور اگر پھل تیار ہونے سے پہلے اس طرح کا معاملہ ہو تو درست نہ ہوگا۔
عموم بلویٰ کے تحت طحاوی نے بھی اسی کو اختیار کی ہے ، ابن نجیم و حصکفی و غیرہ کے بیان کے مطابق اسی پر فتویٰ بھی ہے۔
پھولوں کی فروخت میں مروج استثناء:
ایک خاص عرف بعض علاقوں میں یہ ہے کہ خریدار پھل کی کچھ متعین مقدار مالک کو دیا کرتا ہے، جس کو بعض مقامات پر ’’ڈالی‘‘ یا ’’جنس‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں، اس صورت میں اگر باغ کے ایک درخت کی تعیین کر لی جائے کہ اس کا پھل خود مالک لے گا تب تو جائز ہونے میں کوئی کلام نہیں، اس لئے کہ فقہاء نے فروخت میں کسی متعین درخت کے استثناء کو درست قرار دیا ہے، لیکن اگر درخت کے بجائے پھل کی مقدار مستثنیٰ کی کے اتنے پھل مالک کو دیئے جائیں گے جیسا کہ آج کل عام طور پر مروج ہے تو یہ صورت مالکیہ کے یہاں جائز ہے احناف کے یہاں جائز نہیں ولا يجوز ان يبيع ثمرة ويستثني منها ارطالا معلومة خلافا لمالك (2) اور امام شافعی اور احمد ؒ کی بھی وہی رائے ہے جو احناف کی ہے(۳) میرا خیا ہے کہ
----------------------------------------------
(۱) المغنی ۷۵/۴
(۲) ہدایہ ۱۱/۳
(۳) فتح القدیر ۳۹۲/۵